(آیت1) ➊ الٓمّٓرٰ: یہ حروفِ مقطعات ہیں، ان کی تفصیل سورۂ بقرہ کے شروع میں گزر چکی ہے۔ شعراوی رحمہ اللہ نے یہاں ایک فائدہ ذکر فرمایا ہے کہ قرآن مجید سارا وصل پر مبنی ہے، یعنی ہر لفظ دوسرے سے ملا ہوا ہے، سوائے اس مقام کے جہاں وقف کرنا ہو، جیسا کہ آیت کا آخر وغیرہ، مثلاً اسی سورت کو لے لیں: « تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ» اس میں ہر لفظ پر اعراب پڑھیں گے، مگر حروف مقطعات” الٓمّٓرٰ “ کو ملا کر نہیں پڑھیں گے، بلکہ چاروں حرفوں کو الگ الگ پڑھیں گے، کیونکہ جبریل علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے ہی پڑھایا، پھر آپ نے ایسے ہی پڑھا اور ہم تک تواتر سے ایسے ہی پہنچا۔
➋ تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ: کوئی لفظ جب مطلق بولا جائے تو اس سے کامل فرد مراد ہوتا ہے، مثلاً کہتے ہیں: ”فُلاَنٌ الرَّجُلُ“ یعنی فلاں شخص مرد ہے، مطلب واقعی سچ مچ کامل مرد ہے، بخیل، بزدل، جھوٹا یا لولا لنگڑا نہیں۔ اسی طرح دین و عقائد میں ”اَلْكِتَابُ“ سے مراد کامل کتاب قرآن مجید لیا جاتا ہے۔ نحو میں سیبویہ کی کتاب کو ”اَلْكِتَابُ“ اور شہروں میں سے ”مَدِيْنَةُ النَّبِيِّ صلي الله عليه وسلم “ کو ” اَلْمَدِيْنَةُ “ کہا جاتا ہے۔
➌ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُوْنَ: یعنی آپ کی طرف جو کچھ نازل کیا گیا وہی عین حق ہے، مگر اکثر لوگ غوروفکر نہ کرنے کی وجہ سے ایمان نہیں لاتے۔ اس میں انسانوں کی اکثریت کی رائے کے پرستاروں کے لیے سبق ہے اور ان لوگوں کی تعریف بھی ہے جو ایمان سے بہرہ ور ہیں، وہ قلیل بھی ہو سکتے ہیں کثیر بھی، مگر اکثریت انھی کی ہے جو ایمان کی سعادت سے محروم ہیں۔