(آیت110) ➊ حَتّٰۤى اِذَا اسْتَيْـَٔسَ الرُّسُلُ …:” اسْتَيْـَٔسَ “” يَئِسَ“ میں مبالغہ ہے، یعنی بالکل مایوس ہو گئے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس ” حَتّٰۤى “(یہاں تک) کا تعلق پیچھے کس سے ہے، جواب یہ ہے کہ اس کا تعلق گزشتہ آیت: « وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِيْۤ اِلَيْهِمْ » سے ہے، یعنی ہم نے تجھ سے پہلے فرشتے یا جن نہیں بلکہ آدمی بھیجے، وہ مدتوں اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دیتے رہے مگر ان کی قومیں ان پر ایمان نہیں لائیں، یہاں تک کہ جب رسول ان کے ایمان لانے سے بالکل ناامید ہو گئے۔ ” ظَنُّوْۤا “”ظَنَّ“ کے معنی وسوسہ، گمان اور یقین تینوں آتے ہیں، یعنی انھوں نے گمان کیا کہ ان سے جھوٹ کہا گیا تھا۔ ”ظَنُّوْۤا “ کے فاعل کے متعلق تین قول ہیں، ایک یہ کہ کفار ہیں، یعنی ان کی قوم کے کفار نے یقین کر لیا کہ رسولوں نے ہم سے جو کہا تھا کہ اگر تم ایمان نہ لائے تو تم پر عذاب آ جائے گا، یہ بات ہم سے جھوٹ ہی کہی گئی تھی، کوئی عذاب وغیرہ نہیں آئے گا۔ اس وقت ان رسولوں کے پاس ہماری مدد آگئی اور مجرموں سے ہمارا عذاب ہٹایا نہیں جاتا۔ یہ معنی ابن عباس اور ابن مسعود رضی اللہ عنھم سے مروی ہے۔ دوسرا یہ کہ ” ظَنُّوْۤا “ کے فاعل اہلِ ایمان ہیں، یعنی رسول کفار کے ایمان لانے سے ناامید ہو گئے اور مومنوں کو بھی وسوسہ پیدا ہونے لگا کہ شاید کفار پر عذاب آنے کی بات ان سے جھوٹ ہی کہی گئی تھی۔ یہ معنی بھی درست ہے، کیونکہ وسوسہ پیدا ہونا ایمان کے منافی نہیں، شیطان کا کام ہی لوگوں کے سینے میں وسوسے ڈالنا ہے، مگر اس پر مؤاخذہ نہیں۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ إِنَّ اللّٰهَ تَجَاوَزَ لِيْ عَنْ أُمَّتِيْ مَا وَسْوَسَتْ بِهٖ صُدُوْرُهَا مَا لَمْ تَعْمَلْ أَوْ تَكَلَّمْ ][ بخاري، العتق، باب الخطأ والنسیان في العتاقۃ…: ۲۵۲۸۔ مسلم: ۱۲۷ ]”اللہ تعالیٰ نے میری خاطر میری امت کی ان باتوں سے درگزر فرمایا ہے جن کا وسوسہ ان کے سینے ڈالیں، جب تک وہ ان پر عمل کریں یا انھیں منہ سے نہ نکالیں۔“
تیسرا وہ جو شاہ عبد القادر رحمہ اللہ نے فرمایا: ”یعنی وعدۂ عذاب کو دیر لگی یہاں تک کہ رسول لگے ناامید ہونے کہ شاید ہماری زندگی میں نہ آیا پیچھے آوے اور ان کے اصحاب خیال کرنے لگے کہ شاید وعدہ خلاف تھا۔ اتنے خیال سے آدمی کافر نہیں ہوتا، مگر جانتا ہے کہ یہ خیال بد ہے۔“(موضح) اگر ”ظَنَّ“ سے مراد وسوسہ ہو تو ” ظَنُّوْۤا “ سے مراد رسول بھی بعید نہیں، كَذَا قَالَ ابْنُ تَيْمِيَةَ(روح المعانی) کیونکہ لمبی آزمائشوں اور مصیبتوں میں خیال آ ہی جاتے ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: « اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَ لَمَّا يَاْتِكُمْ مَّثَلُ الَّذِيْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ مَسَّتْهُمُ الْبَاْسَآءُ وَ الضَّرَّآءُ وَ زُلْزِلُوْا حَتّٰى يَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ مَتٰى نَصْرُ اللّٰهِ اَلَاۤ اِنَّ نَصْرَ اللّٰهِ قَرِيْبٌ »[ البقرۃ: ۲۱۴ ]”یا تم نے گمان کر رکھا ہے کہ تم جنت میں داخل ہو جاؤ گے، حالانکہ ابھی تک تم پر ان لوگوں جیسی حالت نہیں آئی جو تم سے پہلے تھے، انھیں تنگی اور تکلیف پہنچی اور وہ سخت ہلائے گئے، یہاں تک کہ رسول اور جو لوگ اس کے ساتھ ایمان لائے تھے، کہہ اٹھے اللہ کی مدد کب ہو گی؟ سن لو! بے شک اللہ کی مدد قریب ہے۔“ اس آیت کی روشنی میں یہ معنی بھی قرین عقل ہے۔ مراد اس آیت سے رسولوں پر آنے والی آزمائشوں کی مدت کی لمبائی اور ان کے صبر کے پیمانے کے لبریز ہونے کے قریب تک پہنچ جانے پر اللہ کی مدد کا آنا ہے، جیسا کہ یوسف علیہ السلام کے ساتھ ہوا۔
➋ جَآءَهُمْ نَصْرُنَا: یعنی پیغمبروں کو ہماری مدد پہنچ گئی۔
➌ وَ لَا يُرَدُّ بَاْسُنَا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِيْنَ: لہٰذا اب اگر عذاب آنے میں دیر ہو رہی ہے تو دھوکا نہ کھاؤ کہ یہ محض ڈراوا ہی ہے۔