(آیت101) ➊ رَبِّ قَدْ اٰتَيْتَنِيْ مِنَ الْمُلْكِ …: پچھلی آیت میں یوسف علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے احسانات کا ذکر کیا ہے، یہاں سے وہ اللہ تعالیٰ کو اس کی صفت ربوبیت کے ساتھ مخاطب کرکے اور مزید نعمتوں کا ذکر کرکے اس چیز کی دعا کرتے ہیں جو ان تمام نعمتوں سے بڑی ہے اور اتنی نعمتوں کے باوجود یوسف علیہ السلام سب سے زیادہ اسی کے متعلق فکر مند ہیں اور فی الواقع اصل فکر اسی کی ہونا لازم ہے۔ عرض کیا: اے ہر لمحے میری نگہداشت کر کے، میری ہر ضرورت پوری کر کے مجھے پالنے والے! تو نے مجھے حکومت میں سے حصہ بھی دیا (” مِنْ “ بمعنی بعض ہے، کیونکہ وہ وزیر خزانہ تھے اور اگر کوئی بادشاہ ہے تو اس کے پاس بھی بادشاہی کا ایک حصہ ہی ہے، کل بادشاہی تو ایک ہی ہستی کی ہے۔” تَبٰرَكَ الَّذِيْ بِيَدِهِ الْمُلْكُ “) اور مجھے باتوں کی اصل حقیقت سمجھنے میں سے کچھ سکھایا (یہاں بھی ”مِنْ“ بعض کے معنی میں ہے، کیونکہ ہر بات کی اصل حقیقت تو ایک ہستی ہی جانتی ہے۔ ” وَمَا يَعْلَمُ تَاْوِيْلَهٗ اِلَّا اللّٰهُ “، یہاں ” تَاْوِيْلِ الْاَحَادِيْثِ “ میں خوابوں کی تعبیر، مقدمات کے فیصلے، وحی الٰہی کا علم سب شامل ہیں)، دنیا و آخرت میں میرا یارومددگار صرف تو ہے، میری آخری درخواست یہ ہے کہ جب تو مجھے فوت کرے تو میں اس وقت تیرا فرماں بردار ہوں، کیونکہ ہمیشہ کی زندگی کا سارا دارو مدار اسی پر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالْخَوَاتِيْمِ][ بخاري، الرقاق، باب الأعمال بالخواتیم …: ۶۴۹۳ ]”اعمال کا دارومدار ان کے خاتموں ہی پر ہے۔“ اس میں ہمارے لیے سبق ہے کہ آدمی دنیا کے جتنے بھی اونچے مرتبے پر پہنچ جائے اسے ہر وقت فکر آخرت ہی کی لازم ہے، کیونکہ وہ باقی ہے اور دنیا کا ہر منصب فانی ہے۔
➋ وَ اَلْحِقْنِيْ بِالصّٰلِحِيْنَ: صالحین میں عام صالحین کے ساتھ اعلیٰ درجے کے صالح، یعنی انبیاء بھی داخل ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے یحییٰ علیہ السلام کے متعلق فرمایا: «وَ سَيِّدًا وَّ حَصُوْرًا وَّ نَبِيًّا مِّنَ الصّٰلِحِيْنَ»[ آل عمران: ۳۹ ]”اور وہ سردار اور اپنے آپ پر بہت ضبط رکھنے والا اور نبی ہو گا، صالحین (نیک لوگوں) میں سے۔“ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا: [ مَا مِنْ نَبِيٍّ يَمْرَضُ إِلاَّ خُيِّرَ بَيْنَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَكَانَ فِيْ شَكْوَاهُ الَّذِيْ قُبِضَ فِيْهِ أَخَذَتْهٗ بُحَّةٌ شَدِيْدَةٌ، فَسَمِعْتُهٗ يَقُوْلُ: «مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَ الصِّدِّيْقِيْنَ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِيْنَ» فَعَلِمْتُ أَنَّهٗ خُيِّرَ][بخاری، التفسیر، باب «فأولئک مع الذین …»: ۴۵۸۶ ]”کوئی نبی مرض الموت میں بیمار نہیں ہوتا حتیٰ کہ اسے دنیا اور آخرت کے درمیان اختیار دیا جاتا ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس بیماری میں فوت ہوئے، آپ کو گلے کی سخت تکلیف ہو گئی تو میں نے آپ سے سنا، آپ کہہ رہے تھے: «مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَ الصِّدِّيْقِيْنَ۠ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِيْنَ»[النساء: ۶۹ ]”میں ان کا ساتھ چاہتا ہوں جن پر اللہ نے انعام فرمایا، نبیوں اور صدیقوں اور شہیدوں اور صالح لوگوں میں سے“ تو میں سمجھ گئی کہ اب آپ کو اختیار دیا گیا ہے۔“ معلوم ہوا قیامت کے دن صالحین کے ساتھ شامل ہونے کی خواہش اور دعا صرف یوسف علیہ السلام ہی نے نہیں بلکہ ساری اولاد آدم کے سردار نے بھی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بے پایاں فضل و کرم سے ہمیں بھی یہ نعمت عطا فرمائے۔ (آمین)
➌ ” تَوَفَّنِيْ مُسْلِمًا “ سے بعض لوگوں نے دلیل پکڑی ہے کہ یوسف علیہ السلام نے موت کی دعا کی، اس لیے موت کی دعا جائز ہے، حالانکہ یہ مطلب درست نہیں۔ کسی بھی امر یا نہی کے ساتھ کوئی قید مثلاً حال یا صفت وغیرہ ہو تو وہ قید مقصود ہوتی ہے، مثلاً ”لَا تَشْرَبْ قَائِمًا“ کے یہ معنی نہیں کہ مت پیو، بلکہ معنی یہ ہے کہ کھڑے ہو کر مت پیو اور” كُلْ بِيَمِيْنِكَ وَكُلْ مِمَّا يَلِيْكَ“ میں یہ حکم نہیں کہ کھانا کھاؤ، بلکہ یہ ہے کہ کھاؤ تو دائیں ہاتھ سے اور ادھر ادھر سے نہیں بلکہ اپنے سامنے سے کھاؤ۔ اسی طرح ” تَوَفَّنِيْ مُسْلِمًا “ کا معنی ہے کہ مجھے جب بھی فوت کرے مسلم (فرماں بردار) ہونے کی حالت میں فوت کرنا۔ اسی طرح ” فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَ انْحَرْ “ میں نماز اور قربانی کا حکم نہیں، وہ دوسری بہت سی آیات میں موجود ہے، بلکہ مراد ہے کہ نماز پڑھو تو صرف اپنے رب کے لیے اور اسی طرح قربانی بھی اسی کے لیے کرو، اس میں کوئی دوسرا شریک نہ ہو۔
➍ انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص موت کی تمنا کسی تکلیف کی وجہ سے ہر گز نہ کرے، جو اس پر آئے، اگر اسے ضرور ہی یہ تمنا کرنی ہے تو یوں کہے: [ اَللّٰهُمَّ أَحْيِنِيْ مَا كَانَتِ الْحَيَاةُ خَيْرًا لِّيْ وَتَوَفَّنِيْ إِذَا كَانَتِ الْوَفَاةُ خَيْرًا لِّيْ ][ بخاری، المرض، باب تمنی المریض الموت: ۵۶۷۱۔ مسلم: ۲۶۸۰ ]”اے اللہ! مجھے اس وقت تک زندہ رکھ جب تک زندہ رہنا میرے لیے بہتر ہے اور مجھے اس وقت فوت کر لے جب موت میرے لیے بہتر ہو۔“ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی تکلیف یا بیماری کی وجہ سے موت کی دعا کرنا منع ہے، البتہ جب دین میں فتنے کا خوف ہو تو یہ دعا کر سکتا ہے، جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے فرمایا، اے محمد! جب تو نماز پڑھے تو یوں کہا کر: [ اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُكَ فِعْلَ الْخَيْرَاتِ وَتَرْكَ الْمُنْكَرَاتِ وَ حُبَّ الْمَسَاكِيْنِ وَ إِذَا أَرَدْتَّ بِعِبَادِكَ فِتْنَةً فَاقْبِضْنِيْ إِلَيْكَ غَيْرَ مَفْتُوْنٍ ][ ترمذی، تفسیر القرآن، باب ومن سورۃ صٓ: ۳۲۳۳، و صححہ الألبانی ]”اے اللہ! میں تجھ سے نیکیاں کرنے اور برائیوں کو چھوڑنے کا اور مساکین کی محبت کا سوال کرتا ہوں اور جب تو اپنے بندوں کے متعلق کسی فتنے (آزمائش) کا ارادہ کرے تو مجھے اس فتنے میں مبتلا ہوئے بغیر اپنے پاس فوت کر لے۔“ اور جیسا کہ مریم علیھا السلام نے کہا: «يٰلَيْتَنِيْ مِتُّ قَبْلَ هٰذَا وَ كُنْتُ نَسْيًا مَّنْسِيًّا» [ مریم: ۲۳ ]”اے کاش! میں اس سے پہلے مر جاتی اور بھولی بھلائی ہوتی۔“ حافظ ابن کثیر نے یہاں علی رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے اپنی امارت کے آخر وقت میں جب دیکھا کہ معاملات ان کے حق میں جمع نہیں ہو رہے اور معاملہ زیادہ سخت ہوتا جاتا ہے تو کہا: ” اَللّٰهُمَّ خُذْنِيْ إِلَيْكَ فَقَدْ سَئِمْتُهُمْ وَ سَئِمُوْنِيْ“”اے اللہ! مجھے اپنے پاس لے جا، کیونکہ میں ان سے اکتا گیا ہوں اور یہ لوگ مجھ سے اکتا گئے ہیں۔“ اور امام بخاری پر جب آزمائشیں آئیں اور امیر خراسان کے ساتھ ان کا معاملہ بگڑا تو انھوں نے دعا کی: ” اَللّٰهُمَّ تَوَفَّنِيْ إِلَيْكَ“”اے اللہ! مجھے اپنے پاس لے جا۔“ ان تاریخی روایات کی سند حافظ ابن کثیر نے ذکر نہیں فرمائی۔ (واللہ اعلم)
➎ یہاں یوسف علیہ السلام کا قصہ ختم ہوا۔ یہ واحد قصہ ہے جو قرآن مجید میں اکٹھا ایک ہی مقام پر بیان کیا گیا ہے، مگر لطف یہ ہے کہ اس میں سے ہر وہ تفصیل ترک کر دی گئی ہے جس کی اس موقع پر ہدایت کے مقصد کے لیے ضرورت نہیں تھی۔ اب آگے اس قصے سے حاصل ہونے والے چند اسباق ذکر ہوں گے۔