(آیت89) ➊ قَالَ هَلْ عَلِمْتُمْ مَّا فَعَلْتُمْ بِيُوْسُفَ وَ اَخِيْهِ: بھائیوں کی بے بسی و درماندگی دیکھ کر اور صدقے کے سوال پر یوسف علیہ السلام کا دل بھر آیا اور معاملے کو مزید طول دینے کی تاب نہ رہی اور وہ وقت آگیا جس کے متعلق کنویں میں اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی کی تھی کہ یہ لوگ جو کچھ اب کر رہے ہیں ایک وقت ضرور آئے گا جب تم انھیں اس کی خبر دو گے اور یہ سوچتے بھی نہ ہوں گے۔ چنانچہ کچھ ناراضگی کا اظہار اور زیادہ تر ان کی غلطی کا عذر خود ہی کرتے ہوئے فرمایا، کیا تمھیں معلوم ہے کہ تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا کیا، جب تم نادان تھے؟
➋ اِذْ اَنْتُمْ جٰهِلُوْنَ: یعنی جو کچھ تم نے کیا اس کی وجہ تمھاری نادانی اور بے وقوفی تھی۔ یوسف علیہ السلام بھائیوں کو ان کی حرکت یاد دلاتے ہوئے کہہ سکتے تھے: ”وَاَنْتُمْ ظَالِمُوْنَ“ کہ جب تم ظلم کر رہے تھے، مگر اس خیال سے کہ وہ شرمندہ نہ ہوں خود ہی ان کے لیے معذرت کا پہلو نکال دیا۔ یہ انتہائی مروت کا مقام ہے جس کی توقع ایک نبی ہی سے ہو سکتی ہے۔