(آیت83) ➊ قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ …: جب بڑے بھائی کی تجویز کے مطابق باقی بھائیوں نے کنعان پہنچ کر اپنے والد یعقوب علیہ السلام سے یہ سب کچھ بیان کیا تو انھوں نے کہا کہ جو کچھ تم کہہ رہے ہو اصل بات یہ نہیں بلکہ تمھارے دلوں نے تمھارے لیے ایک کام مزین کر دیا ہے، اب میرا کام صبر جمیل ہے۔ وہی لفظ منہ سے نکلا جو یوسف کو بھیڑیے کے کھائے جانے کی خبر سن کر نکلا تھا۔ اللہ اپنے بندوں خصوصاً رسولوں کو کتنا بڑا حوصلہ دیتا ہے کہ جگر ٹکڑے ٹکڑے کر دینے والی خبر سن کر بھی نہ شکوہ نہ شکایت، نہ جزع فزع نہ واویلا۔ پہلے ایک بیٹے کی خبر پر بھی صبر جمیل، اب مزید دو بیٹوں کی خبر پر بھی وہی صبر جمیل۔ پہلے بھی اللہ ہی سے مدد مانگی: « وَ اللّٰهُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰى مَا تَصِفُوْنَ »[ یوسف: ۱۸ ] اب بھی اسی کے سہارے پر دل میں امید کا چراغ روشن رکھا: « عَسَى اللّٰهُ اَنْ يَّاْتِيَنِيْ بِهِمْ جَمِيْعًا » امید ہے کہ اللہ ان تینوں کو میرے پاس لے آئے گا، یقینا وہی علیم و حکیم ہے، وہ سب کچھ جانتا بھی ہے اور اس کی حکمتوں کی بھی کوئی انتہا نہیں۔
➋ اس سے معلوم ہوا کہ جھوٹے کی سچی بات کا بھی اعتبار نہیں کیا جاتا۔ رہی یہ بات کہ یعقوب علیہ السلام کس طرح ان سب کی ملاقات کی امید ظاہر فرما رہے ہیں، تو ایک تو یہ کہ وہ اللہ کے نبی تھے اور دوسرے یہ کہ انھیں یوسف علیہ السلام کے خواب کی تعبیر سامنے آنے کا بھی یقین تھا، مگر پیارے بیٹے کی جدائی پھر لخت جگر کے حال سے بے خبری اور تعبیر کے ظہور کا وقت نامعلوم ہونے اور اب مزید دو بیٹوں کی گم شدگی کے پیہم صدمات اور انھیں دل ہی دل میں پی جانے کی کوشش نے یعقوب علیہ السلام کی طبیعت پر بہت ہی زیادہ اثر ڈالا۔