(آیت58) ➊ وَ جَآءَ اِخْوَةُ يُوْسُفَ: یہاں اللہ تعالیٰ نے خوش حالی کے سالوں کا، ان میں یوسف علیہ السلام کے حسنِ انتظام کا اور اس سے متعلق سب باتوں کا ذکر چھوڑ دیا، کیونکہ اصل مقصود یہ تھا کہ انبیاء کو اپنوں کے ہاتھوں کیا کچھ اٹھانا پڑتا ہے اور آخر کار کس طرح ان کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصرت اور حسن انجام کا اہتمام ہوتا ہے۔ درمیان میں گزرنے والے عرصے کا اندازہ خود بخود ہو رہا ہے، اس لیے اب خوش حالی کے سالوں کے ختم ہونے کے بعد قحط کے دوران بھائیوںکی آمد کی بات شروع فرمائی، جس سے بات خودبخود سمجھ میں آ رہی ہے کہ قحط کی وسعت مصر سے نکل کر اردگرد کے ممالک فلسطین و شام وغیرہ تک پہنچ گئی تھی اور مصر کے سوا کہیں سے غلہ نہیں ملتا تھا، اس لیے یہ بھائی غلہ خریدنے کے لیے مصر آئے تھے۔
➋ فَدَخَلُوْا عَلَيْهِ: اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یوسف علیہ السلام کتنی احتیاط سے غلہ تقسیم کر رہے تھے کہ وہ غلہ لینے کے لیے آنے والوں سے خود ملتے اور قیمت وصول کرنے کے باوجود ایک اونٹ فی کس سے زیادہ غلہ نہیں جانے دیتے تھے۔ چھوٹے بھائی کو چھوڑ کر سب کے آنے کی وجہ بھی یہی تھی کہ دس اونٹوں کا غلہ مل جائے گا اور شاید یہ بھی ہو کہ راستے میں دشمن سے محفوظ رہ سکیں۔
➌ فَعَرَفَهُمْ وَ هُمْ لَهٗ مُنْكِرُوْنَ: ” فَعَرَفَهُمْ “ جملہ فعلیہ ہے جس میں تجدد و حدوث ہوتا ہے، یعنی یوسف علیہ السلام نے اپنی یادداشت اور ذکاوت سے دیکھتے ہی انھیں پہچان لیا اور دوسرا جملہ اسمیہ ہے جس میں دوام ہوتا ہے کہ بھائی واپسی تک ان سے ناواقف رہے، کیونکہ بہت مدت گزر گئی تھی، چھوٹی عمر میں ان سے الگ ہوئے تھے۔ دوسرے یہ چیز تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی کہ جس بھائی کو وہ کنویں میں ڈال گئے تھے وہ آج مصر کا مختارِ مطلق ہو گا۔