(آیت 50) ➊ وَ قَالَ الْمَلِكُ ائْتُوْنِيْ بِهٖ: یعنی جب ساقی نے جا کر تعبیر بتائی تو بادشاہ نے کہا: ”اسے میرے پاس لاؤ۔“ اس سے علم کی فضیلت معلوم ہوتی ہے کہ حسن بے مثال قید اور مصیبت کا باعث بنا اور علم رہائی کا۔ دنیا میں جب یہ حال ہے تو آخرت میں علم نافع کی برکتوں کا آپ خود اندازہ فرما لیں۔
➋ قَالَ ارْجِعْ اِلٰى رَبِّكَ …: یوسف علیہ السلام نے قید سے نکل کر قاصد کے ساتھ جانے کے بجائے مطالبہ کیا کہ واپس جاؤ اور بادشاہ سے پوچھو کہ ان عورتوں کا کیا معاملہ تھا جنھوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے، یقینا میرا رب ان کے فریب کو خوب جاننے والا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یوسف علیہ السلام کا خیال تھا کہ شاید بادشاہ کو میرے قید میں بھیجے جانے یا عورتوں کے فریب کے معاملے کا علم ہی نہ ہو، دوسرے وزیروں نے ازخود ہی یہ سب کچھ کیا ہو، یا اگر علم ہو تو جس طرح بدنام کرکے قید کیا گیا اسی کے مطابق علم ہو۔ اسی طرح عام لوگوں میں بھی ممکن ہے کچھ لوگ ان کا قصور سمجھتے ہوں، اس لیے انھوں نے جب تک تحقیق کے ساتھ تہمت سے ہر طرح صفائی نہ ہو، قید سے نکلنے سے انکار کر دیا۔ ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوسف علیہ السلام کے صبر کی تعریف فرمائی، چنانچہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ لَوْ لَبِثْتُ فِي السِّجْنِ مَا لَبِثَ يُوْسُفُ ثُمَّ أَتَانِي الدَّاعِيْ لَأَجَبْتُهٗ ][ بخاری، التعبیر، باب رؤیا أہل السجون والفساد والشرک: ۶۹۹۲ ]”اگر میں اتنی مدت قید خانے میں رہتا جتنی مدت یوسف علیہ السلام رہے، پھر میرے پاس بلانے والا آتا تو میں ضرور اس کی دعوت قبول کرتا۔“
➌ یوسف علیہ السلام نے جو مطالبہ کیا کہ ”بادشاہ سے پوچھو کہ ان عورتوں کا کیا معاملہ تھا جنھوں نے اپنے ہاتھ کاٹ ڈالے تھے، میرا رب ان کے فریب کو خوب جاننے والا ہے“ اس سے صاف ظاہر ہے کہ اپنے ہاتھ کاٹنے والی عورتوں کا یہ فعل (عزیز کی بیوی ہاتھ کاٹنے والیوں میں شامل نہیں تھی) یوسف علیہ السلام کے حسن سے بے خود ہو کر بے اختیاری میں نہیں ہوا، بلکہ یہ باقاعدہ ان کی سازش اور فریب تھا، جیسا کہ میں نے اس سے پہلے بھی ذکر کیا ہے۔