(آیت 47) ➊ قَالَ تَزْرَعُوْنَ سَبْعَ سِنِيْنَ دَاَبًا …: ” دَاَبًا “” تَزْرَعُوْنَ “ کی ضمیر سے حال ہے، یعنی ”دَائِبِيْنَ“ مسلسل پے در پے محنت سے کاشت کرنے والے۔ یوسف علیہ السلام نے تعبیر کے ساتھ ہی حل بھی بتایا۔ یہاں ” تَزْرَعُوْنَ “ بمعنی ”اِزْرَعُوْا“ ہے، یعنی ”سات سال مسلسل محنت سے کاشت کرو “ کیونکہ آگے آ رہا ہے کہ جو کچھ کاٹو اسے سٹوں میں رہنے دو۔ زیادہ تاکید کرنی ہو تو امر کو مضارع کی صورت میں لاتے ہیں، جیسے فرمایا: « وَ اِذْ اَخَذْنَا مِيْثَاقَ بَنِيْۤ اِسْرَآءِيْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّٰهَ »[ البقرۃ: ۸۳ ]”اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو گے۔“ آج سے ہزاروں سال پہلے یوسف علیہ السلام نے گندم کو گھن، سسری اور کیڑے وغیرہ سے محفوظ رکھنے کا بہترین طریقہ بتایا، جدید ترین محققین بھی اس سے آگے نہیں بڑھ سکے۔
➋ اِلَّا قَلِيْلًا مِّمَّا تَاْكُلُوْنَ: یعنی خوشوں سے صرف اتنی گندم صاف کرو جو کھانی ہے اور وہ بھی کم از کم، تاکہ زیادہ سے زیادہ محفوظ رہ سکے اور ان سات سالوں میں آدمیوں کے علاوہ بھس بھی جانوروں کے کام آ سکے۔ کم کھانے کی تاکید پر طب اور شرع دونوں متفق ہیں۔ اس کی حد ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے توچند لقمے بیان فرمائی، فرمایا: [ فَإِنْ كَانَ لَا مَحَالَةَ فَثُلُثٌ لِطَعَامِهٖ وَثُلُثٌ لِشَرَابِهٖ وَثُلُثٌ لِنَفَسِهٖ ][ ترمذی، الزھد، باب ما جاء في کراھیۃ کثرۃ الأکل: ۲۳۸۰، و صححہ الألبانی ]”اگر ضرور ہی زیادہ کھانا ہو تو پیٹ کا ایک حصہ کھانے، ایک پینے اور ایک سانس کے لیے رکھو۔“