تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 42) وَ قَالَ لِلَّذِيْ ظَنَّ اَنَّهٗ …: اس سے معلوم ہوا کہ قید خانے میں رہنا جو بقول بعض زندوں کا قبرستان ہے، کس قدر تکلیف دہ ہے کہ یوسف علیہ السلام جیسے صابر شخص نے اس آدمی سے کہا جس کے متعلق انھوں نے سمجھا تھا کہ وہ رہا ہونے والا ہے کہ اپنے مالک کے پاس میرا ذکر کرنا کہ کس طرح ایک شخص بلاجرم قید میں بند ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ مصیبت سے نکلنے کے لیے دنیا کے جو اسباب اللہ تعالیٰ نے بنائے ہیں انھیں اختیار کرنا توکل کے خلاف نہیں، جیسا کہ « وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى » [ المائدۃ: ۲ ] (نیکی اور تقویٰ پر ایک دوسرے کی مدد کرو) سے ظاہر ہے اور جیسا کہ عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: « مَنْ اَنْصَارِيْۤ اِلَى اللّٰهِ » [ آل عمران: ۵۲ ] اللہ کی طرف میرے مددگار کون ہیں؟ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف سے واپسی پر مطعم بن عدی کی طرف پیغام بھیجا، پھر اس کی پناہ میں مکہ میں داخل ہوئے، بلکہ مسلمان کو دنیا کا ہر جائز سبب اختیار کرنا چاہیے، فرمایا: « وَ اَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ » [الأنفال: ۶۰ ] یعنی ان کفار کے لیے جس قدر تمھاری استطاعت ہے تیاری رکھو، البتہ بھروسا اس کے بعد بھی اللہ ہی پر ہو گا۔

➋ شیطان نے اس ساقی کو اپنے مالک یعنی بادشاہ کے پاس یہ ذکر کرنا بھلا دیا، سو یوسف علیہ السلام کئی سال قید میں رہے۔ شیطان کی آدم علیہ السلام اور ان کی اولاد سے دشمنی کا تو قرآن شاہد ہے: « اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ » [ البقرۃ: ۱۶۸ ] بے شک وہ تمھارا کھلا دشمن ہے۔ اور قرآن نے صراحت کی ہے کہ ساقی کو بھلانا شیطان کا کام تھا، اس کے باوجود بعض اہل علم نے ساقی کو بادشاہ کے پاس اپنا ذکر کرنے کے لیے کہنا یوسف علیہ السلام کی عزیمت اور شانِ پیغمبری کے خلاف قرار دیا ہے اور اتنے سال جیل میں رہنے کا باعث یہ قرار دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو یہ منظور تھا کہ یوسف علیہ السلام کا دل اسباب پر نہ ٹھہرے۔ اس سلسلے میں یہ حضرات وہ روایت بھی پیش کرتے ہیں جو ابن جریر نے اپنی سند کے ساتھ بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر یوسف علیہ السلام وہ بات نہ کہتے جو انھوں نے کہی تو اتنی لمبی مدت قید میں نہ رہتے، کیونکہ انھوں نے غیر اللہ کے ہاں سے مصیبت دور کروانا چاہی۔ حافط ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا: یہ روایت نہایت ضعیف ہے، کیونکہ اس کا راوی سفیان بن وکیع ضعیف ہے اور (اس کا شیخ) ابراہیم بن یزید (الجوزی) اس سے بھی زیادہ ضعیف ہے۔

فَلَبِثَ فِي السِّجْنِ بِضْعَ سِنِيْنَ: بِضْعَ کا لفظ تین سے لے کر نو تک کے لیے آتا ہے۔ قرآن و سنت میں اس مدت کی تعیین کہیں نہیں آئی۔ تابعین میں سے کسی نے سات سال کہا، کسی نے کم و بیش، مگر اب ان سے کون پوچھے کہ آپ کو کس نے یہ مدت بتائی، اگر بنی اسرائیل سے آئی ہے تو اس پر تو اعتبار ممکن نہیں، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق ہم نہ اسے سچا کہہ سکتے ہیں نہ جھوٹا۔ سو اصل یہی ہے کہ وہ مدت دس سال سے کم تھی اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کتنی تھی۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.