(آیت 39) ➊ يٰصَاحِبَيِ السِّجْنِ:”صَاحِبَيِ“ اصل میں”صَاحِبَيْنِ“ تھا جو ”صَاحِبٌ“(ساتھی) کی تثنیہ ہے۔ ” السِّجْنِ “ کی طرف مضاف کیا تو نون تثنیہ گر گیا اور یاء کو کسرہ دے کر آگے ملا دیا گیا، یہ یاء متکلم کی نہیں، اس لیے معنی ہے ”اے قید خانے کے دو ساتھیو!“ یہ الفاظ اکٹھے رہنے کی وجہ سے انس کا بھی اظہار کر رہے ہیں، کیونکہ کوئی قریب ہوتا ہے تو انس ہی سے ہوتا ہے جو دعوت کے لیے ضروری ہے، مگر درحقیقت ایک دوسرے سے الگ الگ ہونے کا بھی کہ ہم تم قید خانے میں اکٹھے رہنے والے ساتھی ہیں، اس کے باوجود اصل ساتھی نہیں، کیونکہ وہ تعلق صرف ایمان والوں کے ساتھ ہی ہوتا ہے۔
➋ ءَاَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ۠ خَيْرٌ …: مصر کے لوگوں کا دین اکثر زمانوں میں شرک یعنی متعدد معبودوں کی عبادت ہی رہا ہے، جیسا کہ تاریخ سے اور مصر کے آثار قدیمہ سے ظاہر ہوتا ہے اور اگر وہ بقول شخصے ایک رب کو مانتے بھی تھے تو دوسری تمام مشرک اقوام کی طرح اس کے تحت مختلف کاموں کا اختیار رکھنے والے کئی ارباب کی عبادت بھی کرتے تھے، کیونکہ ان کے ذہن اس شاہی نظام اور اس کے تحت جاگیر داری نظام سے آگے نہیں سوچ سکتے تھے، جو ان پر مسلط تھا، جیسا کہ یونانیوں کے ہاں ہر کام کی الگ دیوی تھی۔ عراق والے بادشاہ کے ساتھ ساتھ سورج، چاند، ستاروں اور بتوں کی پرستش بھی کرتے تھے، جن سے ابراہیم علیہ السلام کو سابقہ پڑا، اس لیے یوسف علیہ السلام نے سب سے پہلے قید کے ساتھیوں کی عقل کو جھنجوڑتے ہوئے یہی سوال کیا کہ بتاؤ کہ یہ الگ الگ رب بہتر ہیں یا ایک اللہ جو اکیلا ہے اور سب پر غالب اور زبردست ہے، کوئی اس کے آگے دم نہیں مار سکتا، نہ کوئی اس کی مرضی کے خلاف کچھ کر سکتا ہے؟ مزید دیکھیے سورۂ زمر(۲۹)، انبیاء (۲۲) اور بنی اسرائیل (۴۲) ظاہر ہے کہ عقل اگر درست ہو تو اکیلے، زبردست اور غالب رب ہی کو بہتر قرار دے گی۔