(آیت 24) ➊ وَ لَقَدْ هَمَّتْ بِهٖ وَ هَمَّ بِهَا: عزیز کی بیوی کا یوسف علیہ السلام کے ساتھ ارادۂ بدی تو ”لام“ اور ” قَدْ “ سے (جو دونوں تحقیق کے لیے بمعنی قسم آتے ہیں) بلکہ سارے واقعہ ہی سے ظاہر ہے، البتہ یوسف علیہ السلام نے ارادہ کیا یا نہیں، اس میں مفسرین کی مختلف آراء ہیں۔ بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ جس طرح روزہ دار کو ٹھنڈا پانی دیکھ کر اس کی رغبت ہوتی ہے مگر وہ روزے کی وجہ سے اس پر قابو پا لیتا ہے اور یہ ایک طبعی چیز ہے۔ اس قسم کا خیال یوسف علیہ السلام کے دل میں آ گیا ہو تو کچھ بعید نہیں مگر ” بُرْهَانَ رَبِّهٖ “ دیکھنے کی برکت سے یوسف علیہ السلام نے اسے جھٹک دیا۔ مگر دوسری تفسیر جس پر زیادہ اطمینان ہوتا ہے، وہ یہی ہے جو ترجمے سے ظاہر ہے اور قرآن مجید میں ” لَوْ لَاۤ “ شرط کی جزا اس سے پہلے آنے کی مثال بھی موجود ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کے متعلق فرمایا: « اِنْ كَادَتْ لَتُبْدِيْ بِهٖ لَوْ لَاۤ اَنْ رَّبَطْنَا عَلٰى قَلْبِهَا »[ القصص: ۱۰ ]”بے شک وہ قریب تھی کہ اسے ظاہر کر ہی دیتی اگر یہ بات نہ ہوتی کہ ہم نے اس کے دل پر بند باندھ دیا تھا۔“ اگر یوسف علیہ السلام ارادہ کر چکے ہوتے اور برہانِ رب کے ذریعے سے ان کو ہٹایا جاتا تو آیت کے الفاظ یہ نہ ہوتے: « كَذٰلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوْٓءَ وَ الْفَحْشَآءَ »”اسی طرح ہوا، تاکہ ہم اس سے برائی اور بے حیائی کو ہٹا دیں“ بلکہ یہ ہوتے: ”كَذٰلِكَ لِنَصْرِفَهُ عَنِ السُّوْٓءِ وَالْفَحْشَاءِ“ کہ اسی طرح ہوا، تاکہ ہم اسے برائی اور بے حیائی سے ہٹا دیں۔ پھر اس واقعہ سے تعلق رکھنے والے ہر شخص نے جس طرح یوسف علیہ السلام کی بے گناہی کی شہادت دی اس کا تقاضا بھی یہی ہے، مثلاً (1) خود اللہ تعالیٰ: « كَذٰلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوْٓءَ »(2) یوسف علیہ السلام « هِيَ رَاوَدَتْنِيْ » (3) شاہد ”قمیص کا معائنہ“(4) عزیز مصر: « اِنَّكِ كُنْتِ مِنَ الْخٰطِـِٕيْنَ »(5) شاہِ مصر: « اِذْ رَاوَدْتُّنَّ يُوْسُفَ »(6) زنان مصر: « مَا عَلِمْنَا عَلَيْهِ مِنْ سُوْٓءٍ »(7) اور خود عزیز کی بیوی: « وَ اِنَّهٗ لَمِنَ الصّٰدِقِيْنَ»(8) خود یوسف علیہ السلام نے بعد میں فرمایا: « وَ اِلَّا تَصْرِفْ عَنِّيْ كَيْدَهُنَّ اَصْبُ اِلَيْهِنَّ » کہ اگر تو مجھ سے ان کے فریب کو نہ ہٹائے گا تو میں ان کی طرف مائل ہو جاؤں گا، یہ صریح دلیل ہے کہ وہ مائل نہیں ہوئے تھے۔ سب کی شہادتیں ہمارے سامنے ہیں۔ رہے وہ مفسرین جو یوسف علیہ السلام کو بلا دلیل گناہ کے عین کنارے پر پہنچا کر پیچھے ہٹاتے ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کو خود جواب دہ ہوں گے اور جو مفسرین ان بند دروازوں میں ہونے والی گفتگو بھی بڑی تفصیل سے بیان کرتے ہیں وہ شاید وہاں چھپ کر سنتے رہے ہوں گے، یا ان کے پاس اللہ تعالیٰ کی وحی آئی ہو گی، کیونکہ قرآن و حدیث اور عقل و فطرت میں سے تو کوئی چیز ان مکالموں کی تائید نہیں کرتی۔
➋ لَوْ لَاۤ اَنْ رَّاٰ بُرْهَانَ رَبِّهٖ: وہ رب کی دلیل کیا تھی؟ اس کی تعیین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحت کے ساتھ کوئی چیز ثابت نہیں ہے، البتہ مفسرین نے مختلف اقوال نقل کیے ہیں جو محض اقوال ہیں۔ ہمارے استاذ مولانا محمد عبدہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”ہو سکتا ہے کہ ایک نبی کے اخلاق کی بلندی اس کی اجازت نہ دیتی ہو کہ زنا جیسے برے کام پر آمادہ ہوں اور اسی کو یہاں ” بُرْهَانَ رَبِّهٖ “ سے تعبیر فرمایا ہو۔“
➌ اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِيْنَ: ” اَلْمُخْلِصِيْنَ “ لام کے کسرہ کے ساتھ ہو تو اخلاص والے، نیک بخت بندے مراد ہوں گے اور ”الْمُخْلَصِيْنَ “ لام کے فتحہ کے ساتھ ہو تو معنی ہو گا وہ جنھیں چن لیا گیا ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے خالص کر لیا ہے۔ یہاں لام کے فتحہ کے ساتھ ہے، یعنی وہ لوگ جنھیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے چنے جانے کا شرف حاصل ہوا۔ مخلص بندہ ہونا ان دونوں باتوں کی علت ہے کہ یوسف علیہ السلام نے برائی کا ارادہ بھی نہیں کیا اور یہ کہ ہم نے برائی و بے حیائی کو ان سے ہٹا کر رکھا، کیوں؟ اس لیے کہ وہ ہمارے چنے ہوئے بندوں میں سے تھے، جن کے متعلق شیطان نے خود اعتراف کیا تھا کہ میں انھیں گمراہ نہیں کر سکوں گا، اس نے کہا تھا: « اِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِيْنَ »[ الحجر: ۴۰ ]”مگر ان میں سے تیرے وہ بندے جو خالص کیے ہوئے ہیں۔“ اس ایک آیت میں اللہ تعالیٰ نے یوسف علیہ السلام کی طہارت چار بار بیان کی ہے: (1)” لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوْٓءَ “(2)” وَ الْفَحْشَآءَ “(3)” اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِيْنَ “(4)” الْمُخْلَصِيْنَ “