(آیت 22) ➊ وَ لَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٗۤ اٰتَيْنٰهُ حُكْمًا وَّ عِلْمًا:” اَشُدَّ “ بعض اہل علم کے مطابق مفرد ہے جو جمع کے وزن پر آیا ہے۔ بعض نے فرمایا جمع ہے، مگر اس کے لفظ میں سے اس کا واحد نہیں ہے۔ بعض نے فرمایا ” شِدَّةٌ “ کی جمع ہے، جس طرح ”نِعْمَةٌ “ کی جمع ” أَنْعُمٌ “ ہے، یعنی اپنی پوری قوتوں اور جوانی کو پہنچ گئے۔ اسی ” بَلَغَ “ کے لفظ ہی سے بلوغت کی اصطلاح اخذ کی گئی ہے۔ یہ وہ وقت ہے جس کے آتے ہی انسان پر نیکی اور بدی لکھنے والا وہ قلم مقرر ہو جاتا ہے جو بچپن میں اس پر مقرر نہیں تھا۔ اب وہ اپنے جیسے انسان کی پیدائش کا ذریعہ بننے کے قابل ہو جاتا ہے۔ معلوم نہیں جو لوگ اس وقت یوسف علیہ السلام کی عمر کی تعیین پچیس یا تیس یا چالیس سال بیان کرتے ہیں ان کے پاس اس کی کیا دلیل ہے؟ بہرحال جس قسم کی خوش حالی اور ناز و نعمت میں یوسف علیہ السلام کی پرورش ہو رہی تھی، اس میں یہ عمر طوفان بن کر آتی ہے، مگر ان پر اللہ کا فضل تھا جس کی وجہ سے رعونت، شہوت اور حسن و عشق کی آفات کے بجائے اللہ تعالیٰ نے انھیں حکم اور علم عطا فرمایا۔ ”حُكْمٌ“ اور ”حِكْمَةٌ “ تقریباً ہم معنی ہیں، اس کا مطلب ہے ایک دوسرے کے مخالف اور ٹکرانے والے دو معاملات حق اور باطل میں سے حق کا فیصلہ کرنے کی اہلیت۔ یہ اہلیت عطا ہونے کے بعد آدمی صحیح اور غلط کے درمیان فیصلہ کرنے کے قابل ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے انھیں علم عطا فرمایا، یعنی نیکی و بدی کی پہچان اور وہ باتیں جاننے اور ان پر عمل کی استعداد جو عام لوگ نہیں جانتے، جس میں خواب کی تعبیر اور وہ علم بھی شامل ہے جس کا اظہار انھوں نے وزارت کی پیش کش پر خزانے کا شعبہ طلب کرنے پر کیا تھا: «اِنِّيْ حَفِيْظٌ عَلِيْمٌ »[ یوسف: ۵۵ ]”بے شک میں پوری طرح حفاظت کرنے والا، خوب جاننے والا ہوں۔“
➋ وَ كَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِيْنَ: انسان خوش حال ہو یا خستہ حال، اگر وہ نیکی اور اچھائی پر قائم رہے تو اللہ تعالیٰ اسے ایسے ہی جزا دیتے ہیں، مثلاً کوئی بھی تنگ دست جو اللہ کا شکوہ کرنے اور اپنی حالت پر ناراض رہنے کے بجائے اس کی تقدیر پر شاکر ہو کر صبر کرے، اس پر خوش رہے اور غلط سمت میں قدم نہ اٹھائے تو اسے اللہ تعالیٰ ایسے ہی بدلہ دیتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ نوازش صرف یوسف علیہ السلام ہی پر نہیں تھی بلکہ احسان پر کاربند رہنے والے ہر شخص کو ایسے ہی جزا ملتی ہے۔