(آیت 20)وَ شَرَوْهُ بِثَمَنٍۭ بَخْسٍ …:” بَخْسٍ “ کا معنی اصل قیمت سے کم قیمت ہے، جیسے فرمایا: « وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْيَآءَهُمْ »[ الأعراف: ۸۵ ]”اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دو۔“ یعنی قافلے والوں نے اسے تھوڑی قیمت، چند گنے ہوئے درہموں میں بیچ دیا، کیونکہ زیادہ درہم ہوتے تو وہ گننے کے بجائے تول لیے جاتے تھے۔ ”اور وہ اس میں رغبت نہ رکھنے والوں میں سے تھے“ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ قانونی طور پر حقیقی غلام کو نہیں بیچ رہے تھے، اس لیے جو کچھ مل گیا اسے انھوں نے غنیمت سمجھا۔ بے رغبت ہونے کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ جلد اس سے خلاصی حاصل کرنا چاہتے تھے، کیونکہ ڈرتے تھے کہ کہیں کوئی ایسا شخص نہ آ جائے جو انھیں اس جرم میں پکڑ لے کہ وہ اس کے آزاد بیٹے کو غلام بنا کر پکڑ لائے ہیں، تو ہر وقت چھپا کر رکھنا اور یوسف علیہ السلام کو کسی سے اپنی حقیقت بیان کرنے کا موقع ہی نہ دینا ان کے لیے مصیبت تھا۔ اس سے ان لوگوں کی داستان گوئی کی حقیقت بھی معلوم ہو گئی جو یوسف علیہ السلام کے خریداروں کے ہجوم کا اور سوت کی اٹی لانے والی عورت کا اور آخر کار سونے میں تول کر فروخت کرنے کا ذکر کرتے ہیں۔ ویسے بھی ”شَرَي يَشْرِيْ“ بیچنے اور ”اِشْتَرَي يَشْتَرِيْ“ خریدنے کے معنوں میں آتا ہے، الا یہ کہ کوئی خاص قرینہ اس کے خلاف ہو، کیونکہ اصل یہی ہے کہ ”فَعَلَ“ کسی حدث (کام) کے لیے آتا ہے اور ”اِفْتَعَلَ“ اس کی مطاوعت (اس کام کا اثر قبول کرنے) کے لیے ہوتا ہے، جیسے ” بَاعَ “ اس نے بیچا اور ”اِبْتَاعَ“ اس نے خریدا۔ ”رَهَنَ“ اس نے گروی دیا اور ”اِرْتَهَنَ“ اس نے گروی لیا۔ ”كَرِيَ“ اس نے کرایہ پر دیا اور ”اِكْتَرَي“ اس نے کرایہ پر لیا۔ اس کے خلاف اول تو آتا ہی نہیں، آئے تو کوئی قرینہ موجود ہوتا ہے۔ جو لوگ یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کا آ کر قافلے والوں کے ہاتھوں فروخت کرنا ذکر کرتے ہیں ان کی بات کا قرآن کی کسی آیت میں ذکر چھوڑ کر اشارہ بھی نہیں ہے۔ اگر کوئی اسرائیلی روایت ہے تو اس کا اعتبار نہیں اور وہ قرآن کے بیان کے بھی خلاف ہے۔