(آیت 12،11) قَالُوْا يٰۤاَبَانَا مَا لَكَ لَا تَاْمَنَّا …: اب یہ مرحلہ درپیش تھا کہ یوسف علیہ السلام کو ساتھ کیسے لے جائیں۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے پہلے بھی وہ کئی بار یوسف علیہ السلام کو ساتھ لے جانے کی کوشش کر چکے تھے، مگر والد نے اجازت نہیں دی تھی اور یہ کہ والد کو پہلے بھی ان کے متعلق اعتبار نہ تھا کہ وہ یوسف کے خیر خواہ ہیں، یا انھیں کوئی گزند نہیں پہنچائیں گے۔ اس مرتبہ دس کے دس بھائیوں نے منت، خوشامد اور دھونس دھاندلی کا ہر حربہ استعمال کرکے یوسف علیہ السلام کو ساتھ لے جانے کی اجازت طلب کی۔ سب سے پہلے تو نہایت ادب اور منت کے ساتھ بات کی، ابتدا دیکھیے ” يٰۤاَبَانَا “”اے ہمارے باپ!“ اس سے قریب تر رشتہ کون سا ہو گا جو درمیان میں لا کر درخواست کی جائے اور دل نرم نہ ہو، پھر ساتھ ہی دھونس دیکھیے ”آپ کو کیا ہے کہ یوسف کے بارے میں ہم پر اعتماد ہی نہیں کرتے “(گویا سارا قصور ابا جی کا ہے)”حالانکہ بے شک ہم یقینا اس کے خیر خواہ ہیں۔“” اِنَّا “ کے ” اِنَّ “ اور ” لَنٰصِحُوْنَ “ کے لام کے ساتھ خیر خواہی کا یقین دلانا ملاحظہ فرمائیں، اہل عرب کے ہاں اس میں قسم کا مفہوم شامل ہوتا ہے۔ پھر یوسف کی مزید خیر خواہی کا ذکر ہوتا ہے کہ کبھی باہر جنگل میں جا کر اسے سیر و تفریح کا موقع ہی نہیں ملا۔ کل آپ اسے ہمارے ساتھ بھیجیں، جنگل کے پھل وغیرہ کھائے پیے گا، کھیلے کودے گا، خوش دل ہو گا۔ رہا جنگل اور صحرا میں وحشی جانوروں وغیرہ کا خطرہ تو اس کی فکر نہ کیجیے۔ ”بے شک“ ہم اس کی ”یقینا“ حفاظت کرنے والے ہیں۔ یہ وہی قسم کے مفہوم والے الفاظ ہیں جو انھوں نے اپنی خیر خواہی کا یقین دلاتے ہوئے کہے تھے کہ ” وَ اِنَّا لَهٗ لَنٰصِحُوْنَ “ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ان کا پیشہ جنگل میں بکریاں وغیرہ چرانا تھا۔