(آیت 10)قَالَ قَآىِٕلٌ مِّنْهُمْ لَا تَقْتُلُوْا يُوْسُفَ …:” غَيٰبَتِ “ کا معنی لغت میں ہے: ”غَيَابَةُ كُلِّ شَيْءٍ مَا سَتَرَكَ مِنْهُ “ یعنی ہر چیز کی غیابت وہ ہے جو تمھیں اس سے پردے میں کر لے، یعنی اسے تم سے چھپا لے۔ اس لیے قبر کو بھی ”غَيَابَةٌ“ کہتے ہیں۔ ” الْجُبِّ “ کا معنی کنواں، بہت پانی اور گہرائی والا کنواں یا مٹی کا کھودا ہوا کنواں جس میں پتھروں اور اینٹوں کی دیوار نہ بنائی گئی ہو، ”السَّيَّارَةِ “ قافلہ۔ (قاموس) ان بھائیوں میں سے ایک نے جو فطرتاً دوسروں سے بہتر اور رحم دل تھا، جب انھیں حد سے گزرتے دیکھا تو یہ سمجھ کر کہ یہ کسی طرح ٹلنے والے نہیں، انھیں ایسا مشورہ دیا جسے وہ بھی قبول کر سکیں اور اسے یوسف کا طرف دار بھی قرار نہ دیں۔ وہ یہ تھا کہ یوسف کو قتل نہ کرو، قتل تو بہت ہی بڑا جرم ہے۔ (مفسرین فرماتے ہیں کہ یوسف کا نام اس نے ان کے دل میں نرمی، شفقت اور رحم ابھارنے کے لیے لیا، تاکہ وہ کچھ سوچیں کہ ہم کسے قتل کرنے جا رہے ہیں، یوسف کو؟ جو ہمارا بھائی ہے) اگر ضرور ہی کچھ کرنا ہے تو اسے کسی اندھے کنویں کی گہرائی میں پھینک دو۔ اس سے تمھارا مقصد بھی پورا ہو جائے گا کہ کوئی قافلہ اسے اٹھا کر لے جائے گا، تم اپنے مقصد یعنی والد کی نگاہوں سے دورکرنے میں بھی کامیاب ہو جاؤ گے اور ایک معصوم جان کے قتل سے بھی بچ جاؤ گے۔ ” قَالَ قَآىِٕلٌ مِّنْهُمْ “ مطلب یہ کہ اگر قتل کا مشورہ دینے والے بھائی تھے تو یہ بھی ایک بھائی ہی تھا۔ یہ بات کس بھائی نے کہی تھی، قرآن و حدیث میں اس کا ذکر نہیں، کیونکہ ہدایت کے مقصد کے لیے اس کی ضرورت نہ تھی اور پہلی کتابوں کے سچ یا جھوٹ کا کچھ پتا نہیں کہ ان پر بھروسا کر کے کوئی نام بتایا جائے۔