(آیت 7) ➊ لَقَدْ كَانَ فِيْ يُوْسُفَ …: یہاں سے یوسف علیہ السلام کے قصے کی تفصیل شروع ہوتی ہے۔ ” اٰيٰتٌ “” آيَةٌ “ کی جمع ہے۔ یہاں آیات سے مراد وہ عبرتیں، نصیحتیں اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کی عظیم نشانیاں ہیں جو اس واقعہ میں ذکر ہوئی ہیں، چونکہ وہ بہت سی ہیں اور بہت سے لوگوں سے متعلق ہیں، مثلاً ایک طرف بھائیوں کی نفرت، حسد، بدگمانی، اس زمانے کے لوگوں کے حالات، آزاد لوگوں کو غلام بنا لینا، ان کا اندازِ حکومت، ان کے قوانین، شیطان کا بہکانا، اپنوں کے ظلم، پیاروں سے جدائی، بے وطنی، غلامی کے صدمے، حسن کی وجہ سے آنے والی آزمائشیں، عزیز کی بیوی کے عشق کی شورش اور طغیانی اور یوسف علیہ السلام کی عفت کا امتحان، پھر قید خانے کی آزمائش ہے، دوسری طرف اللہ تعالیٰ کے انعامات اور اس کا اپنے کام پر غالب ہونے کا مظاہرہ ہے، یوسف علیہ السلام کا تمام دشمنوں، حاسدوں اور مخالفوں کی خواہش کے برعکس اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ کمالات علم و حکمت، اخلاص نیت، حسن عمل اور صبر و تقویٰ کی بدولت جیل اور غلامی سے نکل کر قرب شاہی اور حکومت کے وسیع اختیارات کا حصول ہے۔ جابر و ظالم بھائیوں کی ان کے سامنے بے بسی اور ان سے صدقے کے سوال پر مجبور ہونا ہے۔ پھر اس سارے عرصے میں یوسف علیہ السلام کا ہر زیادتی کرنے والے سے انتقام کے بجائے حسن سلوک، بے مثال صبر اورعفو و درگزر ہے اور آخر میں یوسف علیہ السلام کے خواب گیارہ ستاروں اور سورج و چاند کے ان کے سامنے سجدہ ریز ہونے کی تعبیر کا ظہور ہے اور اس تمام عظمت و رفعت کے باوجود یوسف علیہ السلام کا آخرت کی فکر میں اللہ تعالیٰ سے اسلام پر موت اور صالحین کے ساتھ ملانے کی دعا ہے۔ غرض ایک ایک بات اپنے اندر بہت سی نشانیاں اور عبرتیں رکھتی ہے۔
➋ لِلسَّآىِٕلِيْنَ: یہ سوال کرنے والے کون تھے، اشرف الحواشی میں ہے: ”منقول ہے کہ قریش نے یہود کے اشارے پر امتحان کی غرض سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال کیا کہ ابراہیم علیہ السلام کا وطن شام تھا تو بنی اسرائیل مصر میں کیسے آباد ہوگئے، حتیٰ کہ موسیٰ علیہ السلام کے دور میں فرعون سے نجات حاصل کی؟ اس پر یہ سورت اتری اور فرمایا کہ سوال کرنے والوں کے لیے اس قصہ میں بہت سی نشانیاں ہیں۔ انھوں نے ایک بھائی پر حسد کیا تو آخر کار اسی کے محتاج ہوئے، اسی طرح یہود حسد کر رہے ہیں اور قریش نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نکالا تو آخر کار آپ ہی کا عروج ہوا۔ (موضح) مگر یہ روایات اسرائیلی ہیں (اور مکہ میں یہود تھے بھی نہیں، نہ اہل مکہ کا ان سے خاص رابطہ تھا) حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے ایسی کسی روایت کا ذکر نہیں کیا بلکہ اس کے بالمقابل دوسری ایک دو روایات بحوالہ ابن جریر بیان کی ہیں کہ صحابہ کے سوال پر یہ سورت نازل ہوئی۔ (مگر ابن عباس رضی اللہ عنھما سے منقول یہ روایت بھی منقطع ہے، کیونکہ ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت کرنے والے راوی عمرو بن قیس نے انھیں پایا ہی نہیں۔ دیکھیے الاستیعاب فی بیان الاسباب) بہر حال اگر اسرائیلی روایات کو معتبر مان لیا جائے تو نشانیوں سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی نشانیاں ہیں اور پوچھنے والوں سے مراد یہودی یا کفار مکہ ہیں اور اگر ان کا اعتبار نہ کیا جائے تو آیات سے مراد وہ عبرتیں ہیں جو یوسف علیہ السلام کے قصے میں پائی جاتی ہیں اور پوچھنے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو اللہ کی آیات کو دیکھ کر نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ صاحب معالم نے ان عبرتوں کو خوب تفصیل سے لکھا ہے۔“ ابن عاشور نے لکھا ہے کہ اہلِ عرب کی بلاغت کا یہ ایک اسلوب ہے کہ وہ متوجہ کرنے کے لیے سائل کا ذکر کرتے ہیں۔ مراد اس بات کو سننے کا شوق دلانا ہوتا ہے، جیساکہ فرمایا: « وَ جَعَلَ فِيْهَا رَوَاسِيَ مِنْ فَوْقِهَا وَ بٰرَكَ فِيْهَا وَ قَدَّرَ فِيْهَاۤ اَقْوَاتَهَا فِيْۤ اَرْبَعَةِ اَيَّامٍ سَوَآءً لِّلسَّآىِٕلِيْنَ »[ حٰمٓ السجدۃ: ۱۰ ]”اور اس نے اس میں اس کے اوپر سے گڑے ہوئے پہاڑ بنائے اور اس میں بہت برکت رکھی اور اس میں اس کی غذائیں اندازے کے ساتھ رکھیں، چار دن میں، اس حال میں کہ سوال کرنے والوں کے لیے برابر (جواب) ہے۔“ اور جیسا کہ سموئل نے کہا:
سَلِيْ إِنْ جَهِلْتِ النَّاسَ عَنَّا وَ عَنْهُمْ
فَلَيْسَ سَوَاءً عَالِمٌ وَ جَهُوْلُ
”اے مخاطبہ! اگر تجھے معلوم نہیں تو لوگوں سے ہمارے اور ان کے متعلق سوال کر لے، کیونکہ جاننے والا اور نہ جاننے والا برابر نہیں ہوتے۔ “
اور انیف بن زبان نے کہا ہے:
فَلَمَّا الْتَقَيْنَا بَيَّنَ السَّيْفُ بَيْنَنَا
لِسَائِلَةٍ عَنَّا حَفِيٍّ سُؤَالُهَا
”تو جب ہم آپس میں مقابل ہوئے تو تلوار نے ہمارے درمیان واضح فیصلہ کر دیا، اس سوال کرنے والی کے لیے جس کا سوال بہت اصرار کے ساتھ تھا۔“
عرب شاعر عموماً سوال کرنے والی عورتوں کا ذکر کرتے ہیں، یہ قرآن کا اعجاز ہے کہ اس نے یہ انداز بدل کر سوال کرنے والیوں کے بجائے مردوں کو سوال کرنے والے قرار دے کر جواب دیا۔ (التحرير والتنوير)