یہ سورت مکی ہے، مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے مسلمانوں پر جس طرح اپنے ہی عزیزوں اور رشتہ داروں نے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے، آپ اس سے نہایت غم زدہ رہتے تھے۔ بعض اوقات اللہ کے حکم سے انھیں یہ بھی فرماتے کہ تم اگر میری بات نہیں مانتے تو تمھاری مرضی مگر اس قرابت کا تو خیال رکھو جو میرے اور تمھارے درمیان ہے، فرمایا: « قُلْ لَّاۤ اَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبٰى» [ الشوریٰ: ۲۳ ]”کہہ دے میں تم سے اس پر کوئی اجرت نہیں مانگتا مگر وہ محبت جو قرابت کی وجہ سے ہوتی ہے اس کا تو خیال رکھو۔“ ایسے ہی کسی موقع پر سورۂ یوسف نازل ہوئی جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تسلی کا بے حد سامان موجود ہے کہ دشمن خواہ جس حد تک چلا جائے، اپنے بھائی اور عزیز حسد میں انصاف اور انسانیت کی تمام حدیں پار کر جائیں، پھر بھی ہوتا وہی ہے جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے، اس لیے آپ بے فکر رہیں۔ اس سورت میں کمال درجے کا غم، پھر اسی درجے یا اس سے بڑھ کر خوشی، انتہائی درجے کی بے بسی اور پھر کمال درجے کا اقتدار۔ نابینا کر دینے والی جدائی اور آنکھیں روشن کر دینے والی ملاقات کی خوش خبری، انتہائی درجے کی ہوس اور دعوتِ گناہ اور اس کے مقابلے میں حد درجے کی پاک دامنی، بے انتہا ظلم اور کمال درجے کی معافی، غرض عجیب و غریب واقعات اور مضامین ہیں جو غمگین بھی کرتے ہیں اور خوش بھی۔ اہل ِعلم فرماتے ہیں اور تجربے سے بھی ثابت ہے کہ اس سورت کو اس کے معانی کا خیال کرکے پڑھنے والا غمگین اور ناامید شخص بھی خوش ہو جاتا ہے اور اللہ کی رحمت کی امید کا چراغ اس کے دل میں روشن ہو جاتا ہے۔ امیر المومنین عمر بن خطاب اور عثمان بن عفان رضی اللہ عنھما اکثر صبح کی نماز میں سورۂ یوسف کی تلاوت کیا کرتے تھے۔ عبد اللہ بن شداد کہتے ہیں، میں نے عمر رضی اللہ عنہ کی ہچکیوں کے ساتھ رونے کی آواز سنی جب کہ میں صفوں کے آخر میں تھا، وہ یہ آیت پڑھ رہے تھے: « اِنَّمَاۤ اَشْكُوْا بَثِّيْ وَ حُزْنِيْۤ اِلَى اللّٰهِ »[ یوسف: ۸۶ ]”(یعقوب علیہ السلام نے کہا) میں تو اپنی ظاہر ہونے والی بے قراری اور اپنے غم کی شکایت صرف اللہ کی جناب میں کرتا ہوں۔“[بخاری، قبل الحدیث:۷۱۶]
اس سورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دل کی تسلی کا بہت سا سامان موجود ہے کہ جس طرح کنویں میں پھینکنے والے بھائی یوسف علیہ السلام کے تقویٰ اور صبر کے نتیجے میں اللہ غالب کے نظر نہ آنے والے اسباب کے ہاتھوں مجبور ہو کر ایک دن ان کے سامنے جھک کر معافی کے خواستگار ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ اعزہ و اقارب بھی اسی طرح ایک دن آپ کے سامنے عاجزی سے کھڑے ہوں گے اور صاف لفظوں میں آپ کی برتری تسلیم کریں گے، فرمایا: « قَالُوْا تَاللّٰهِ لَقَدْ اٰثَرَكَ اللّٰهُ عَلَيْنَا وَ اِنْ كُنَّا لَخٰطِـِٕيْنَ »[ یوسف: ۹۱ ]”انھوں نے (یوسف علیہ السلام سے) کہا، اللہ کی قسم! بلاشبہ یقینا اللہ نے تجھے ہم پر فوقیت بخشی ہے اور بلاشبہ ہم واقعی خطا کار تھے۔“
(آیت 1)الٓرٰتِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ الْمُبِيْنِ:” الٓرٰ “ کے لیے دیکھیے سورۂ بقرہ کی پہلی آیت۔ ” الْمُبِيْنِ “” أَبَانَ يُبِيْنُ“ باب افعال سے اسم فاعل ہے، لازم بھی آتا ہے، جیسے: « اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ »[ البقرۃ: ۱۶۸ ]”بے شک وہ تمھارا کھلا (واضح) دشمن ہے۔“ متعدی بھی، یعنی بیان کرنے والا، واضح کرنے والا۔ ” الْكِتٰبِ الْمُبِيْنِ “ یعنی جس کا انداز بیان واضح اور ہر ایک کی سمجھ میں آنے والا ہے، یا جس کا اللہ کا کلام ہونا بالکل عیاں اور ہر شک و شبہ سے بالا ہے۔