«الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ» کا بیان آئے گا یہ دونوں نام رحمت سے مشتق ہیں۔ دونوں میں مبالغہ ہے «الرَّحْمَٰنِ» میں «الرَّحِيمِ» سے زیادہ مبالغہ ہے۔ علامہ ابن جریر رحمہ اللہ کے قول سے معلوم ہوتا ہے وہ بھی ان معنوں سے متفق ہیں گویا اس پر اتفاق ہے۔
بعض سلف کی تفسیروں سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے ان معنوں پر مبنی عیسیٰ علیہ السلام کا قول بھی پہلے گزر چکا ہے کہ «الرَّحْمَٰنِ» سے مراد دنیا اور آخرت میں رحم کرنے والا اور «الرَّحِيمِ» سے مراد آخرت میں رحم کرنے والا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ «رحمٰن» مشتق نہیں ہے اگر یہ اس طرح ہوتا تو مرحوم کے ساتھ ملتا۔ حالانکہ قرآن میں «بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيمًا»[33-الأحزاب:43] الخ آیا ہے۔
مبرد کہتے ہیں «رحمٰن» عبرانی نام ہے عربی نہیں۔ ابواسحاق زجاج معانی القرآن میں کہتے ہیں کہ احمد بن یحییٰ کا قول ہے کہ «رحیم» عربی لفظ ہے اور «رحمٰن» عبرانی ہے دونوں کو جمع کر دیا گیا ہے۔ لیکن ابواسحٰق فرماتے ہیں ”اس قول کو دل نہیں مانتا۔“
قرطبی فرماتے ہیں اس لفظ کے مشتق ہونے کی یہ دلیل ہے کہ ترمذی کی صحیح حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ میں رحمٰن ہوں میں نے رحم کو پیدا کیا اور اپنے نام میں سے ہی اس کا نام مشتق کیا۔ اس کے ملانے والے کو میں ملاؤں گا اور اس کے توڑنے والے کو کاٹ دوں گا[سنن ترمذي:1908،قال الشيخ الألباني:صحيح] اس صریح حدیث کے ہوتے ہوئے مخالفت اور انکار کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔
رہا کفار عرب کا اس نام سے انکار کرنا یہ محض ان کی جہالت کا ایک کرشمہ تھا۔ قرطبی کہتے ہیں کہ ” «رحمٰن» اور «رحیم» کے ایک ہی معنی ہیں اور جیسے «نَدْمَانَ» اور «نَدِيمٍ»“ ابوعبید کا بھی یہی خیال ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ «فَعْلَانَ فَعِيلٍ» کی طرح نہیں۔ «فَعْلَانَ» میں مبالغہ ضروری ہوتا ہے جیسے «غَضْبَانُ» اسی شخص کو کہہ سکتے ہیں۔ جو بہت ہی غصہ والا ہو اور «فَعِيلٌ» صرف فاعل اور صرف مفعول کے لیے بھی آتا ہے۔ جو مبالغہ سے خالی ہوتا ہے۔ ابوعلی فارسی کہتے ہیں کہ ” «رحمٰن» عام اسم ہے جو ہر قسم کی رحمتوں کو شامل ہے اور صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے۔ «رحیم» باعتبار مومنوں کے ہے فرمایا ہے «وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَحِيْمًا»[33-الأحزاب:43] ”مومنون کے ساتھ رحیم ہے“۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ”یہ دونوں رحمت و رحم والے ہیں، ایک میں دوسرے سے زیادہ رحمت و رحم ہے۔“[تفسیر قرطبی:105/1] سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی اس روایت میں لفظ «ارق» ہے اس کے معنی خطابی وغیرہ «أَرَقُّ» کرتے ہیں جیسے کہ حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ «رفق» یعنی شفیق اور مہربانی والا ہے وہ ہر کام میں نرمی اور آسانی کو پسند کرتا ہے وہ دوسروں پر نرمی اور آسانی کرنے والے پر وہ نعمتیں مرحمت فرماتا ہے جو سختی کرنے والے پر عطا نہیں فرماتا ۔ [صحیح مسلم:2593]
ابن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” «رحمٰن» اسے کہتے ہیں کہ جب اس سے جو مانگا جائے عطا فرمائے اور «رحیم» وہ ہے کہ جب اس سے نہ مانگا جائے وہ غضبناک ہو۔“ ترمذی کی حدیث میں ہے جو شخص اللہ تعالیٰ سے نہ مانگے اللہ تعالیٰ اس پر غضبناک ہوتا ہے ۔ [سنن ترمذي:3373،قال الشيخ الألباني:حسن]
بعض شاعروں کا قول ہے: «اللَّهُ يَغْضَبُ إِنْ تَرَكْت سُؤَالَهُ ... وَبُنَيُّ آدَمَ حِينَ يُسْأَلُ يَغْضَبُ» یعنی اللہ تعالیٰ سے نہ مانگو تو وہ ناراض ہوتا ہے اور بنی آدم سے مانگو تو وہ بگڑتے ہیں۔
عزرمی فرماتے ہیں کہ «رحمٰن» کے معنی تمام مخلوق پر رحم کرنے والا اور «رحیم» کے معنی مومنوں پر رحم کرنے والا ہے ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:127/1] دیکھئیے قرآن کریم کی دو آیتوں «ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ»[25-الفرقان:59] اور «الرَّحْمَـٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَىٰ»[20-طه:5] میں «اسْتَوَىٰ» کے ساتھ «رحمٰن» کا لفظ ذکر کیا تاکہ تمام مخلوق کو یہ لفظ اپنے عام رحم و کرم کے معنی سے شامل ہو سکے اور مومنوں کے ذکر کے ساتھ لفظ «رحیم» فرمایا: «وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَحِيْمًا»[33-الأحزاب:43] الخ پس معلوم ہوا کہ «رحمٰن» میں مبالغہ بہ نسبت «رحیم» کے بہت زیادہ ہے۔ لیکن حدیث کی ایک دعا میں «رَحْمَنَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَرَحِيمَهُمَاا»[سلسلۃ احادیث ضعیفہ البانی:5287،موضوع] بھی آیا ہے۔
«رحمٰن» یہ نام بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے، اس کے سوا کسی دوسرے کا نام نہیں۔ جیسے کہ فرمان ہے کہ «الله» کو پکارو یا «رحمٰن» کو جس نام سے چاہو اسے پکارو اس کے بہت اچھے اچھے نام ہیں۔ ایک اور آیت میں ہے: «وَاسْأَلْ مَنْ أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رُسُلِنَا أَجَعَلْنَا مِنْ دُونِ الرَّحْمَـٰنِ آلِهَةً يُعْبَدُونَ»[43-الزخرف:45] یعنی ”ان سے پوچھ لو کہ تجھ سے پہلے ہم نے جو رسول بھیجے تھے کیا انہوں نے «رحمٰن» کے سوا کسی کو معبود کہا تھا کہ ان کی عبادت کی جائے“۔
جب مسیلمہ، کذاب نے بڑھ چڑھ کر دعوے شروع کئے اور اپنا نام «رحمٰن العیامہ» رکھا تو پروردگار نے اسے بے انتہا رسوا اور برباد کیا، وہ جھوٹ اور کذب کی علامت مشہور ہو گیا۔ آج اسے مسیلمہ کذاب کہا جاتا ہے اور ہر جھوٹے دعویدار کو اس کے ساتھ تشبیہ دی جاتی ہے۔ ہر دیہاتی اور شہری ہر کچے پکے گھر والا اسے بخوبی جانتا ہے۔
بعض کہتے ہیں کہ «رحیم» میں «رحمٰن» سے زیادہ مبالغہ ہے اس لیے کہ اس لفظ کے ساتھ اگلے لفظ کی تاکید کی گئی ہے اور تاکید بہ نسبت اس کے کہ جس کی تاکید جائے زیادہ قوی ہوتی ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں تاکید ہے ہی نہیں بلکہ یہ تو صفت ہے اور صفت میں یہ قاعدہ نہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کا نام لیا گیا جس نام میں بھی اس کا کوئی شریک نہیں، سب سے پہلے اس کی صفت «رحمٰن» بیان کی گئی اور یہ نام رکھنا بھی دوسروں کو ممنوع ہے جیسے فرما دیا کہ «الله» کو یا «رحمٰن» کو پکارو جس نام سے چاہو پکارو اس کے لیے اسماء حسنیٰ بہت سارے ہیں۔ مسیلمہ نے بدترین جرأت کی لیکن برباد ہوا اور اس کے گمراہ ساتھیوں کے سوا اس کی کسی قدر کسی کے دل میں نہ آئی۔
«رحیم» کے وصف کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے دوسروں کو بھی موصوف کیا ہے، فرماتا ہے: «لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ»[9-التوبة:128] اس آیت میں اپنے نبی کو رحیم کہا، اسی طرح اپنے بعض ایسے ناموں سے دوسروں کو بھی اس نے یاد کیا ہے۔
جیسے آیت «إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن نُّطْفَةٍ أَمْشَاجٍ نَّبْتَلِيهِ فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بَصِيرًا»[76-الإنسان:2] میں انسان کو «سمیع» اور «بصیر» کہا ہے۔
حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بعض نام تو ایسے ہیں کہ دوسروں پر بھی ہم معنی ہونے کا اطلاق ہو سکتا ہے اور بعض ایسے ہیں کہ نہیں ہو سکتا جیسے «الله» اور «رحمٰن»، «خالق» اور «رزاق» وغیرہ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنا پہلا نام اللہ پھر اس کی صفت «رحمٰن» سے کی۔ اس لیے کہ «رحیم» کی نسبت یہ زیادہ خاص ہے اور زیادہ مشہور ہے۔
قاعدہ ہے کہ اول سب سے زیادہ بزرگ نام لیا جاتا ہے، اس لیے سب سے پہلے سب سے زیادہ خاص نام لیا گیا پھر اس سے کم، پھر اس سے کم، اگر کہا جائے کہ جب «رحمٰن» میں «رحیم» سے زیادہ مبالغہ موجود ہے پھر اسی پر اکتفا کیوں نہ کیا گیا؟
تو اس کے جواب میں عطا خراسانی کا یہ قول پیش کیا جا سکتا ہے کہ چونکہ کافروں نے «رحمٰن» کا نام بھی غیروں کا رکھ لیا تھا اس لیے «رحیم» کا لفظ بھی ساتھ لگایا گیا تاکہ کسی قسم کا وہم ہی نہ رہے۔
«رحمٰن و رحیم» صرف اللہ تعالیٰ ہی کا نام ہے۔ ابن جریر نے تاہم اس قول کی تصدیق کی ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جاہلیت کے زمانے کے عرب «رحمٰن» سے واقف ہی نہ تھے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کی آیت «قُلِ ادْعُوا اللَّـهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَـٰنَ أَيًّا مَا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ»[17-الإسراء:110] نازل فرما کر ان کی تردید کی۔
حدیبیہ والے سال جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا کہ «بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ» لکھو تو کفار نے کہا تھا کہ ہم «رحمٰن» اور «رحیم» کو نہیں جانتے ۔ [صحیح بخاری:حدیث2731] بخاری میں یہ روایت موجود ہے۔
بعض روایتوں میں ہے کہ انہوں نے کہا تھا کہ ہم «رحمٰن یمامہ» کو جانتے ہیں کسی اور «رحمٰن» کو نہیں جانتے۔
اسی طرح قرآن پاک میں ہے «وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اسْجُدُوا لِلرَّحْمَـٰنِ قَالُوا وَمَا الرَّحْمَـٰنُ أَنَسْجُدُ لِمَا تَأْمُرُنَا وَزَادَهُمْ نُفُورًا»[25-الفرقان:60] یعنی ”جب ان سے کہا جاتا ہے کہ «رحمٰن» کے سامنے سجدہ کرو تو وہ حیران زدہ ہو کر جواب دیتے ہیں کہ «رحمٰن» کون ہے؟ جسے ہم تیرے قول کی وجہ سے سجدہ کریں“۔
درحقیقت یہ بدکار لوگ صرف عناد، تکبر، سرکشی اور دشمنی کی بنا پر «رحمٰن» سے انکار کرتے تھے نہ کہ وہ اس نام سے ناآشنا تھے۔ اس لیے کہ جاہلیت کے زمانے کے پرانے اشعار میں بھی اللہ تعالیٰ کا نام «رحمٰن» موجود ہے جو انہی کے شاعروں کے شعر ہیں۔ سلامہ اور دوسرے شعراء کے اشعار میں ملاحظہ ہو۔
تفسیر ابن جریر میں ہے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے کہ «رحمٰن» «فعلان» کے وزن پر رحمت سے ماخوذ ہے اور کلام عرب سے ہے۔ وہ اللہ رفیق اور رقیق ہے جس پر رحم کرنا چاہے اور جس سے غصے ہو اس سے بہت دور اور اس پر بہت سخت گیر بھی ہے اسی طرح اس کے تمام نام ہیں۔
حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں «رحمٰن» کا نام دوسروں کے لیے منع ہے۔ خود اللہ تعالیٰ کا نام ہے لوگ اس نام پر کوئی حق نہیں رکھتے۔ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا والی حدیث جس میں کہ ہر آیت پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہرا کرتے تھے ۔ [سنن ابوداود:4001،قال الشيخ الألباني:صحيح] پہلے گزر چکی ہے۔
اور ایک جماعت اسی طرح «بِسْمِ اللَّـهِ» کو آیت قرار دے کر آیت «الْحَمْدُ» کو الگ پڑھتی ہے اور بعض ملا کر پڑھتے ہیں۔ «میم» کو دو ساکن جمع ہو جانے کی وجہ سے زیر دیتے ہیں۔ جمہور کا بھی یہی قول ہے۔
کوفی کہتے ہیں کہ بعض عرب «میم» کے زیر سے پڑھتے ہیں، ہمزہ کی حرکت زبر «میم» کو دیتے ہیں۔ جیسے آیت «الم» * «اللَّـهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ»[3-آل عمران:1-2]
ابن عطیہ کہتے ہیں کہ زبر کی قرأت کسی سے بھی میرے خیال میں مروی نہیں۔ آیت «بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ» کی تفسیر ختم ہوئی۔ اب آگے سنئیے۔