یہودیوں کو اور سرزنش کی جا رہی ہے کہ ” ان کی کتاب میں صاف لفظوں میں جو حکم تھا یہ کھلم کھلا اس کا بھی خلاف کر رہے ہیں اور سرکشی اور بے پرواہی سے اسے بھی چھوڑ رہے ہیں “۔ نضری یہودیوں کو تو قرظی یہودیوں کے بدلے قتل کرتے ہیں لیکن قریظہ کے یہود کو بنو نضیر کے یہود کے عوض قتل نہیں کرتے بلکہ دیت لے کر چھوڑ دیتے ہیں۔ اسی طرح انہوں نے شادی شدہ زانی کی سنگساری کے حکم کو بدل دیا ہے اور صرف کالا منہ کر کے رسوا کر کے مار پیٹ کر چھوڑ دیتے ہیں۔ اسی لیے وہاں تو انہیں کافر کہا یہاں انصاف نہ کرنے کی وجہ سے انہیں ظالم کہا۔
ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا «وَالْعَيْنُ» پڑھنا بھی مروی ہے۔ [سنن ابوداود:3976،قال الشيخ الألباني:ضعیف]
علماء کرام کا قول ہے کہ اگلی شریعت چاہے ہمارے سامنے بطور تقرر بیان کی جائے اور منسوخ نہ ہو تو وہ ہمارے لیے بھی شریعت ہے۔ جیسے یہ احکام سب کے سب ہماری شریعت میں بھی اسی طرح ہیں۔
امام نووی رحمة الله فرماتے ہیں ”اس مسئلے میں تین مسلک ہیں ایک تو وہی جو بیان ہوا، ایک اس کے بالکل برعکس ایک یہ کہ صرف ابراہیمی شریعت جاری اور باقی ہے اور کوئی نہیں۔ اس آیت کے عموم سے یہ بھی استدلال کیا گیا ہے کہ مرد عورت کے بدلے بھی قتل کیا جائے گا کیونکہ یہاں لفظ نفس ہے جو مرد عورت دونوں کو شامل ہے۔“
چنانچہ حدیث شریف میں بھی ہے کہ مرد عورت کے خون کے بدلے قتل کیا جائے گا ۔ [سنن نسائی:4857،قال الشيخ الألباني:ضعیف]
اور حدیث میں ہے کہ مسلمانوں کے خون آپس میں مساوی ہیں ۔ [سنن ابوداود:2751،قال الشيخ الألباني:صحیح] بعض بزرگوں سے مروی ہے کہ ”مرد جب کسی عورت کو قتل کر دے تو اسے اس کے بدلے قتل نہ کیا جائے گا بلکہ صرف دیت لی جائے گی۔“ لیکن یہ قول جمہور کے خلاف ہے۔
امام ابوحنیفہ رحمة الله تو فرماتے ہیں کہ ”ذمی کافر کے قتل کے بدلے بھی مسلمان قتل کر دیا جائے گا اور غلام کے قتل کے بدلے آزاد بھی قتل کر دیا جائے گا۔“ لیکن یہ مذہب جمہور کے خلاف ہے۔
بخاری مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مسلمان کافر کے بدلے قتل کیا نہ کیا جائے گا ۔ [صحیح بخاری:111]
اور سلف کے بہت سے آثار اس بارے میں موجود ہیں کہ وہ غلام کا قصاص آزاد سے نہیں لیتے تھے اور آزاد غلام کے بدلے قتل نہ کیا جائے گا۔ حدیثیں بھی اس بارے میں مروی ہیں لیکن صحت کو نہیں پہنچیں۔ امام شافعی رحمة الله تو فرماتے ہیں ”اس مسئلہ میں امام ابوحنیفہ رحمة الله کے خلاف اجماع ہے۔“ لیکن ان باتوں سے اس قول کا بطلان لازم نہیں آتا تاوقتیکہ آیت کے عموم کو خاص کرنے والی کوئی زبردست صاف ثابت دلیل نہ ہو۔
بخاری و مسلم میں ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ بن نضر کی پھوپھی ربیع نے ایک لونڈی کے دانت توڑ دیئے، اب لوگوں نے اس سے معافی چاہی لیکن وہ نہ مانی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس معاملہ آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدلہ لینے کا حکم دے دیا، اس پر انس بن نضر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیا اس عورت کے سامنے کے دانت توڑ دیئے جائیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں اے انس! اللہ کی کتاب میں قصاص کا حکم موجود ہے ۔ یہ سن کر فرمایا نہیں نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قسم ہے اس اللہ کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، اس کے دانت ہرگز نہ توڑے جائیں گے، چنانچہ ہوا بھی یہی کہ لوگ راضی رضامند ہوگئے اور قصاص چھوڑ دیا بلکہ معاف کر دیا۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بعض بندگان رب ایسے بھی ہیں کہ اگر وہ اللہ پر کوئی قسم کھا لیں تو اللہ تعالیٰ اسے پوری ہی کر دے ۔ [صحیح بخاری:2703]
دوسری روایت میں ہے کہ ”پہلے انہوں نے نہ تو معافی دی نہ دیت لینی منظور کی۔“ نسائی وغیرہ میں ہے، ایک غریب جماعت کے غلام نے کسی مالدار جماعت کے غلام کے کان کاٹ دیئے، ان لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آکر عرض کیا کہ ہم لوگ فقیر مسکین ہیں، مال ہمارے پاس نہیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر کوئی جرمانہ نہ رکھا ۔ [سنن ابوداود:4590، قال الشيخ الألباني:صحیح]
ہو سکتا ہے کہ یہ غلام بالغ نہ ہو اور ہو سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیت اپنے پاس سے دے دی ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان سے سفارش کرکے معاف کرا لیا ہو۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ”جان جان کے بدلے ماری جائے گی، آنکھ پھوڑ دینے والے کی آنکھ پھوڑ دی جائے گی، ناک کاٹنے والے کا ناک کاٹ دیا جائے گا، دانت توڑنے والے کا دانت توڑ دیا جائے گا اور زخم کا بھی بدلہ لیا جائے گا۔“[تفسیر ابن جریر الطبری:360/10]
اس میں آزاد مسلمان سب کے سب برابر ہیں۔ مرد عورت ایک ہی حکم میں۔ جبکہ یہ کام قصداً کئے گئے ہوں۔ اس میں غلام بھی آپس میں برابر ہیں، ان کے مرد بھی اور عورتیں بھی۔
(قاعدہ:) اعضاء کا کٹنا تو جوڑ سے ہوتا ہے اس میں تو قصاص واجب ہے۔ جیسے ہاتھ، پیر، قدم، ہتھیلی وغیرہ۔ لیکن جو زخم جوڑ پر نہ ہوں بلکہ ہڈی پر آئے ہوں، ان کی بابت امام مالک رحمة الله فرماتے ہیں کہ ”ان میں بھی قصاص ہے مگر ران میں اور اس جیسے اعضاء میں اس لیے کہ وہ خوف و خطر کی جگہ ہے۔“
ان کے برخلاف ابوحنیفہ رحمة الله اور ان کے دونوں ساتھیوں کا مذہب ہے کہ ”کسی ہڈی میں قصاص نہیں، بجز دانت کے اور امام شافعی رحمة الله کے نزدیک مطلق کسی ہڈی کا قصاص نہیں۔“ یہی مروی ہے سیدنا عمر بن خطاب اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی اور یہی کہتے ہیں عطاء، شبعی، حسن بصری، زہری، ابراہیم، نخعی اور عمر بن عبدالعزیز رحمة الله علیہم بھی اور اسی کی طرف گئے ہیں سفیان ثوری اور لیث بن سعد رحمة الله علیہم بھی۔
امام احمد رحمہ اللہ سے بھی یہی قول زیادہ مشہور ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمة الله کی دلیل وہی انس رضی اللہ عنہ والی روایت ہے جس میں ربیع سے دانت کا قصاص دلوانے کا حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمودہ ہے۔ لیکن دراصل اس روایت سے یہ مذہب ثابت نہیں ہوتا۔
کیونکہ اس میں یہ لفظ ہیں کہ اس کے سامنے کے دانت اس نے توڑ دیئے تھے اور ہو سکتا ہے کہ بغیر ٹوٹنے کے جھڑ گئے ہوں۔ اس حالت میں قصاص اجماع سے واجب ہے۔
ان کی دلیل کا پورا حصہ وہ ہے جو ابن ماجہ میں ہے کہ ایک شخص نے دوسرے کے بازو کو کہنی سے نیچے نیچے ایک تلوار مار دی، جس سے اس کی کلائی کٹ گئی، صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مقدمہ آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ دیت ادا کرو اس نے کہا میں قصاص چاہتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسی کو لے لے اللہ تجھے اسی میں برکت دے گا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قصاص کو نہیں فرمایا ۔ [سنن ابن ماجہ:2636،قال الشيخ الألباني:ضعیف]
لیکن یہ حدیث بالکل ضعیف اور گری ہوئی ہے، اس کے ایک راوی ہشم بن عکلی اعرابی ضعیف ہیں، ان کی حدیث سے حجت نہیں پکڑی جاتی، دوسرے راوی غران بن جاریہ اعرابی بھی ضعیف ہیں۔ پھر وہ کہتے ہیں کہ زخموں کا قصاص ان کے درست ہو جانے اور بھر جانے سے پہلے لینا جائز نہیں اور اگر پہلے لے لیا گیا پھر زخم بڑھ گیا تو کوئی بدلہ دلوایا نہ جائے گا۔
اس کی دلیل مسند احمد کی یہ حدیث ہے کہ ایک شخص نے دوسرے کے گھٹنے میں چوٹ مار دی، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا مجھے بدلہ دلوایئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دلوا دیا، اس کے بعد وہ پھر آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں تو لنگڑا ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تجھے منع کیا تھا لیکن تو نہ مانا، اب تیرے اس لنگڑے پن کا بدلہ کچھ نہیں ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زخموں کے بھر جانے سے پہلے بدلہ لینے کو منع فرما دیا ۔ [مسند احمد:217/2:صحیح بالشواهد]