(آیت 5) ➊ هُوَ الَّذِيْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَآءً …: ” ضِيَآءً “” ضَاءَ يَضُوْءُ ضَوْءً ا وَ ضِيَاءً“ سے ہے اور ” قِيَامًا “ کی طرح مصدر ہے، بعض کہتے ہیں یہ ” ضَوْءٌ“ کی جمع ہے، جیسا کہ” سَوْطٌ“ کی جمع ”سِيَاطٌ“ یعنی سورج کو ”ذَاتَ ضِيَاءٍ“ تیز روشنی والا اور چاند کو ”ذَا نُوْرٍ“ نور والا بنایا، پھر ”ذَاتَ“ اور ”ذَا“ کو حذف کرکے مبالغہ کے لیے سورج کو سراپا ضیاء اور چاند کو سراپا نور قرار دیا۔ ضیاء اور نور میں وہی فرق ہے جو سورج کی تیز اور گرم روشنی اور چاند کی پر سکون روشنی میں ہوتا ہے۔ انسان اور کائنات کی حرکت و سکون کے لیے دن اور رات کی طرح سورج اور چاند بھی ضروری ہیں۔
➋ وَ قَدَّرَهٗ مَنَازِلَ …: یعنی چاند کی منزلیں مقرر فرمائیں کہ ہر روز گھٹتا اور بڑھتا ہے، اگرچہ سورج کی بھی منزلیں مقرر ہیں، جس کا ذکر اگلی آیت میں آ رہا ہے، مگر چاند کا اٹھائیس منزلوں میں روزانہ شکل بدل کر آنا، پھر ایک یا دو دن چھپ کرنئے سرے سے طلوع ہونا تاریخ اور ماہ و سال کی تعیین کے لیے زیادہ آسان اور قابل عمل ہے۔ اس لیے شریعت کے تمام احکام مثلاً حج، روزہ اور کفارہ وغیرہ بھی اسی سے متعلق ہیں۔ دیکھیے « يَسْـَٔلُوْنَكَ عَنِ الْاَهِلَّةِ »[ البقرۃ: ۱۸۹ ] کی تفسیر۔
➌ مَا خَلَقَ اللّٰهُ ذٰلِكَ اِلَّا بِالْحَقِّ …: یعنی اللہ تعالیٰ نے یہ سب کچھ بے فائدہ اور بے مقصد پیدا نہیں فرمایا۔ یہ تفصیل علم و فہم رکھنے والوں کے لیے ہے، کیونکہ بے علم اور بے سمجھ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی ان نشانیوں کے بیان سے کچھ فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔