(آیت 2) ➊ اَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا …: یعنی آخر اس میں تعجب اور حیرت کی کون سی بات ہے کہ انسانوں کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرانے اور فلاح و سعادت کی راہ دکھانے کے لیے خود انھی میں سے ایک بشر کو رسول بنا کر بھیج دیا گیا؟ تعجب کی بات تو تب ہوتی کہ ان کا پروردگار ان کی ہدایت کا کوئی سامان نہ کرتا، یا ان میں کسی جن یا فرشتے کو رسول بنا کر بھیج دیتا، کیونکہ فرشتہ یا جن انسانوں کے لیے نمونۂ عمل بن ہی نہیں سکتا۔ مزید دیکھیے سورۂ توبہ (۱۲۸) اور آل عمران (۱۶۴) کی تفسیر۔
➋ اَنَّ لَهُمْ قَدَمَ صِدْقٍ …: ” قَدَمٌ “ کا معنی تو ظاہر ہے، دوسروں سے آگے وہی نکلتا ہے جس کا قدم دوڑ میں سب سے آگے نکل جائے، اس لیے” قَدَمٌ “ کا معنی پیش قدمی بھی کرتے ہیں۔ درجے اور مرتبے کی بلندی بھی آگے نکلنے ہی سے حاصل ہوتی ہے۔ ” صِدْقٍ “(سچ) مبالغہ کے لیے مصدر بمعنی اسم فاعل ہے، یعنی اتنا سچا کہ سراپا سچ ہے، جیسے ” زَيْدٌ عَدْلٌ“” أَيْ زَيْدٌ عَادِلٌ “ گویا زید سراپا عدل ہے۔ صدق قول میں بھی ہوتا ہے اور فعل میں بھی۔ ” قَدَمَ “(موصوف) اپنی صفت” صِدْقٍ “ کی طرف مضاف ہے، جیسا کہ ” مَسْجِدُ الْجَامِعِ“ معنی یہ ہوا کہ ایمان والوں کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں حقیقی پیش قدمی اور سچا مرتبہ ہے، کفار اللہ تعالیٰ کی طرف بڑھے ہی نہیں بلکہ شرک و کفر میں ایسے اندھے ہوئے کہ وہ شخص جس کی چالیس سالہ زندگی کے صدق و امانت کے وہ خود شاہد تھے اس پر ایمان لانے کے بجائے ضد اور عناد سے اسے جادوگر کہہ دیا، ایسے اندھوں اور بہروں کو رب تعالیٰ کے ہاں حقیقی پیش قدمی اور سچا مرتبہ کیسے حاصل ہو سکتا تھا۔ سو وہ آگے بڑھنے کے بجائے جہنم میں گرنے کے لیے پیچھے رہ گئے۔ چونکہ ان کا آپ کو جادوگر قرار دینا بالکل ہی بودی بات تھی، اس لیے اس کا جواب دینے کی ضرورت ہی نہیں سمجھی گئی۔
➌ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جادوگر قرار دینے سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ ان کے دماغ یہ مان گئے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عام آدمی نہیں۔ مگر ان کی بدبختی دیکھیے کہ وہ جادوگروں کی غلیظ اور خبیث زندگی اور بد عادات سے خوب واقف ہونے کے باوجود سب سے زیادہ امین، راست باز، پاک دامن اور صاحب عقل و دانش انسان کو محض ہٹ دھرمی کی بنا پر جادوگر کہہ رہے ہیں۔