(آیت 58)وَ اِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِيَانَةً …: یعنی عہد توڑنا خیانت ہے جو مسلمان کے لیے کسی صورت جائز نہیں، حتیٰ کہ اگر کسی قوم کے ساتھ معاہدہ ہو تو ان کے خلاف کوئی بھی کار روائی جائز نہیں، خواہ وہ لوگ تمھاری ریاست کے اندر ہوں یا باہر۔ اگر فی الواقع ان کی طرف سے عہد توڑنے یا دھوکا دینے کا خطرہ پیدا ہو جائے، جو آثار سے نظر آ جاتا ہے تو پھر بھی آگاہ کیے بغیر ان کے خلاف خفیہ کارروائی یا کھلا حملہ کر دینا جائز نہیں، بلکہ صاف اعلان کر کے واضح کر دو کہ ہمارا تمھارا معاہدہ ختم ہے، تاکہ تم پر عہد توڑنے یا دھوکا دینے کا الزام نہ آئے، کیونکہ اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاء کی سیرت بھی یہی رہی کہ کفار کی طرف سے عہد شکنی کے خطرے کی صورت میں معاہدے کے خاتمے کا اعلان فرما دیتے اور پھر حملہ آور ہوتے۔ مگر جب کسی قوم نے بد عہدی کر دی ہو تو اس پر بے خبری میں حملہ بھی جائز ہے، جیسا کہ کفار مکہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیف بنو خزاعہ پر بنو بکر کے حملے میں شریک ہو کر صلح حدیبیہ کا معاہدہ توڑا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر خبر دیے بغیر چڑھائی کر دی اور انھیں خبر اس وقت ہوئی جب اسلامی فوجیں مکہ کے قریب آ پہنچیں۔ مسلمان اپنے معاہدوں کی کس قدر پاس داری کرتے تھے، اس کی مثال وہ واقعہ ہے جو سلیم بن عامر بیان کرتے ہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ رومیوں کی سرزمین کی طرف کوچ کر رہے تھے، جبکہ آپ کے اور ان کے درمیان ایک معاہدہ تھا، آپ چاہتے تھے کہ ان کے قریب پہنچ جائیں اور جب معاہدے کی مدت ختم ہو تو (اچانک) ان پر حملہ کر دیں، تو انھوں نے دیکھا کہ ایک بزرگ سواری پر سوار ہیں اور کہہ رہے ہیں اللہ اکبر، اللہ اکبر، عہد پورا کرنا ہے، عہد توڑنا نہیں، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”جس کا کسی قوم سے کوئی عہد ہو تو ہر گز نہ کوئی گرہ کھولے اور نہ اسے باندھے یہاں تک کہ اس کی مدت ختم ہو جائے، یا برابری کی بنیاد پر ان کا عہد ان کی طرف پھینک دے۔“ یہ حدیث معاویہ رضی اللہ عنہ کو پہنچی تو واپس آ گئے۔ حدیث بیان کرنے والے یہ بزرگ عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ تھے۔ [ أحمد: 111/4، ح: ۱۷۰۱۷۔ أبو داوٗد: ۲۷۵۹ ]