(آیت 44) ➊ وَ اِذْ يُرِيْكُمُوْهُمْ اِذِ الْتَقَيْتُمْ فِيْۤ اَعْيُنِكُمْ قَلِيْلًا …: پہلا واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خواب کا تھا، یہ عین میدان جنگ کا واقعہ ہے، جب جنگ ہونے والی تھی مگر ابھی شروع نہیں ہوئی تھی، کافر مسلمانوں کو تھوڑے نظر آتے تھے، حتیٰ کہ بعض نے دوسرے سے پوچھا، تمھارے خیال میں یہ کتنے ہوں گے؟ اس نے کہا، ستر (۷۰) کے قریب ہوں گے۔ اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خواب کی بھی تائید ہو رہی تھی اور یہ بھی کہ مسلمانوں کی ہمت بڑھ جائے اور کفار کی نظر میں مسلمانوں کو کم دکھانے کی حکمت یہ تھی کہ وہ زیادہ تیاری کی ضرورت نہ سمجھیں اور لڑائی سے گریز نہ کریں، بلکہ دونوں فریق ایک دوسرے کو کم سمجھتے ہوئے لڑائی پر آمادہ ہو جائیں۔ یہ شروع کی بات ہے، مگر جب جنگ شروع ہو گئی تو کافروں کو مسلمانوں کی تعداد زیادہ نظر آنے لگی، جیسا کہ آل عمران میں ہے: «وَ اُخْرٰى كَافِرَةٌ يَّرَوْنَهُمْ مِّثْلَيْهِمْ رَاْيَ الْعَيْنِ»[ آل عمران: ۱۳ ]” اور دوسری جماعت کافر تھی جو ان (مسلمانوں) کو آنکھوں سے دیکھتے ہوئے اپنے سے دو گنا دیکھ رہے تھے۔“ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ جنگ شروع ہو گئی، پھر شروع ہونے پر کافروں کے حوصلے پست ہو گئے اور وہ جلد ہی شکست کھا کر پیچھے کی طرف بھاگنے لگے اور مسلمانوں کے حوصلے بدستور بڑھتے گئے۔
➋ لِيَقْضِيَ اللّٰهُ اَمْرًا كَانَ مَفْعُوْلًا: یعنی وہی کہ اسلام کی فتح اور کفر کی شکست ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی پر معجزانہ دلیل قائم ہو جائے۔
➌ وَ اِلَى اللّٰهِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ: یعنی وہی جو چاہتا ہے فیصلہ کرتا ہے اور پھر جب اصل اختیار ہر چیز میں اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے تو مسلمان کو چاہیے کہ اسی کو اپنا مقصود بنائے۔