(آیت 39) ➊ وَ قَاتِلُوْهُمْ حَتّٰى لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ: ” فِتْنَةٌ “ کے لفظی معنی آگ میں تپانے اور آزمانے کے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت تک کفار سے لڑتے رہو جب تک کسی شخص کے اسلام لانے پر مشرکوں کی اسے ستانے اور آزمائش میں ڈالنے کی قوت ختم نہیں ہو جاتی اور تمام دنیا سے شرک کا غلبہ ختم نہیں ہوتا۔ اس لیے صحیح احادیث میں فتنہ کا معنی شرک بھی آیا ہے۔ مگر اس سے مراد زبردستی مسلمان بنانا اور مشرکین و کفار کو ختم کرنا نہیں، فرمایا: « لَاۤ اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ »[ البقرۃ: ۲۵۶ ]”دین میں کوئی زبردستی نہیں۔“ کیونکہ پھر کفار کے جزیہ دینے کی نوبت ہی نہیں آ سکتی، بلکہ اس وقت تک لڑتے رہناہے جب تک ایمان لانے والوں کے راستے میں کفار کے رکاوٹ بننے کی قوت ختم نہیں ہوتی، پوری دنیا پر اسلام کا غلبہ نہیں ہوتا اور کفر پر اصرار کی صورت میں جزیہ دے کر اسلام کی برتری تسلیم نہیں کرتے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ بقرہ (۱۹۱، ۱۹۳، ۲۱۷) اور توبہ (۲۹)۔
➋ وَ يَكُوْنَ الدِّيْنُ كُلُّهٗ لِلّٰهِ: یعنی تمام دینوں پر اسلام کا غلبہ ہو جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ کرتا رہوں، یہاں تک کہ وہ لا الٰہ الا اللہ کی شہادت اور محمد رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی شہادت دیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں، پھر جب وہ یہ کچھ کر لیں تو انھوں نے اپنے خون اور اموال مجھ سے محفوظ کر لیے، مگر اسلام کے حق کے ساتھ اور ان کا حساب اللہ کے ذمے ہے۔“[ بخاری، الإیمان، باب فإن تابوا و أقاموا…: ۲۵، عن عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما۔ مسلم: ۲۲ ]
➌ فَاِنِ انْتَهَوْا فَاِنَّ اللّٰهَ بِمَا يَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ: یعنی اسلام لے آئیں تو تمھارے لیے ان کا ظاہر کافی ہے۔ اگر وہ دل سے مسلمان نہیں ہوئے یا چھپ کر کوئی غلط کام کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کے ظاہری اور باطنی اعمال کو خوب دیکھنے والا ہے، وہ خود نمٹ لے گا۔