(آیت 30)وَ اِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا …: جب تقریباً تمام صحابہ ہجرت کرکے مدینہ چلے گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر، علی رضی اللہ عنھما اور اکّا دکّا مسلمان مکہ میں رہ گئے تو کفار کو فکر لاحق ہوئی کہ اگر محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) بھی ہمارے ہاتھ سے نکل گئے تو وہ ہمارے لیے ایسا خطرہ ثابت ہوں گے جو ہمارے قابو سے باہر ہو گا۔ چنانچہ ان کی دار الندوہ میں مجلس ہوئی، جس میں تجاویز و آراء طلب کی گئیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا خلاصہ بیان فرمایا ہے، ایک رائے یہ تھی کہ آپ کو قید کر دیں اور موت تک وہاں سے نہ نکلنے دیں، اس پر یہ امکان سامنے آیا کہ ان کے ساتھی کار روائی کرکے انھیں چھڑا لیں گے۔ ایک تجویز یہ آئی کہ انھیں قتل کر دیا جائے، اس پر آپ کے خاندان بنو عبد مناف کے ساتھ لڑائی کا خطرہ سامنے آیا اور ایک مشورہ یہ آیا کہ ہم خود ہی انھیں مکہ سے نکال دیں، جہاں چاہیں جائیں، ہماری تو جان چھوٹے گی، اس پر یہ خطرہ سامنے آیا کہ وہ اپنے صدق و امانت، خوش خلقی اور خوش کلامی سے لوگوں کو اکٹھا کرکے تم پر حملہ آور ہوں گے۔ آخر فیصلہ یہ ٹھہرا کہ ہر قبیلے سے ایک نوجوان لیا جائے، وہ سب رات کو آپ کے گھر کا محاصرہ کر لیں، آپ جوں ہی باہر نکلیں وہ سب مل کر حملہ کرکے آپ کا کام تمام کر دیں۔ بنو عبد مناف کس کس سے لڑیں گے، آخر دیت پر راضی ہو جائیں گے۔ جبریل علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ کو ان کی سازش کی اطلاع دے دی اور یہ بھی بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہجرت کی اجازت دے دی ہے۔ آپ اس رات اپنے بستر پر نہیں سوئے، بلکہ علی رضی اللہ عنہ کو اپنے بستر پر سلا دیا۔ کافر ساری رات انتظار میں رہے مگر اللہ تعالیٰ نے اپنی خفیہ تدبیر سے کفار کی سازش کو ناکام کرکے آپ کو بحفاظت نکال لیا، اگلے دن آپ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی معیت میں ہجرت فرمائی۔ سیرت کی تمام کتابوں میں یہ قصہ مذکور ہے جس کا یہ خلاصہ قرآن مجید کے مطابق ہے۔
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں: ”ہجرت کی رات علی رضی اللہ عنہ نے اپنی جان کا سودا کیا، وہ یہ کہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر اوڑھی اور آپ کی جگہ سو گئے۔“[ أحمد: 330/1، ۳۳۱، ح: ۳۰۶۲۔ مستدرک حاکم: 4/3، ح ۴۲۶۴۔ وصححہ الحاکم و وافقہ الذھبی ] ہجرت کے واقعہ کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ توبہ (۴۰)۔