(آیت 24) ➊ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِيْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ:”اَجَابَ يُجِيْبُ“ کا معنی قبول کرنا ہے اور” اسْتَجِيْبُوْا “ باب استفعال ”اِسْتَجَابَ يَسْتَجِيْبُ “ سے ہے، جس میں عموماً طلب ہوتی ہے، یہاں طلب کا معنی نہیں ہو سکتا، لہٰذا سین اور تاء کے اضافے سے معنی میں زیادتی مراد ہو گی، اس لیے ”خوشی سے قبول کرو“ ترجمہ کیا گیا ہے، یعنی اللہ اور اس کے رسول کی دعوت پر خوشی سے لبیک کہنا تم پرلازم ہے۔
➋ اِذَا دَعَاكُمْ:”جب وہ تمھیں دعوت دے“ کا مطلب یہ ہے کہ فوراً قبول کرو، دیر نہ کرو۔ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نماز پڑھ رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں بلایا، وہ نماز پوری کرکے آئے تو آپ نے یہ آیت پڑھ کر فرمایا: ”تم نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں سنا؟“ انھوں نے کہا: ”آئندہ میں ان شاء اللہ ایسا نہیں کروں گا۔“[ ترمذی، فضائل القرآن، باب ما جاء فی فضل فاتحۃ الکتاب: ۲۸۷۵ ] صحیح بخاری میں اس آیت کی تفسیر میں ابوسعید بن معلی رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھتے ہوئے بلانا اور اسی وقت نہ آنے پر یہی تلقین فرمانا موجود ہے۔ [ بخاری، التفسیر، باب: «یأیھا الذین اٰمنوا استجیبوا…» : ۴۶۴۷ ]
➌ لِمَا يُحْيِيْكُمْ:”اس چیز کے لیے جو تمھیں زندگی بخشتی ہے“ اس سے متعلق علمائے سلف کے مختلف اقوال ہیں، بعض نے اسلام و ایمان اور بعض نے قرآن، لیکن اکثر نے اس سے جہاد مراد لیا ہے، کیونکہ جہاد دنیا اور آخرت میں زندگی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے، خصوصاً اس لیے کہ شروع سورت سے یہی بات چلی آ رہی ہے، آیت: « اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ وَ هُمْ اُلُوْفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ »[ البقرۃ: ۲۴۳ ] سے مراد بھی جہاد کی ترغیب ہے۔ ابن عمر رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرما رہے تھے: ”جب تم عینہ (حیلے سے سود کی ایک قسم) کے ساتھ بیع کرو گے اور بیلوں کی دمیں پکڑ لو گے اور کاشت کاری پر خوش ہو جاؤ گے اور جہاد کو چھوڑ دو گے تو اللہ تعالیٰ تم پر ایسی بڑی ذلت مسلط کرے گا جسے دور نہیں کرے گا، حتیٰ کہ تم اپنے دین کی طرف لوٹ آؤ۔“[ أبوداوٗد، البیوع، باب فی النہی عن العینۃ: ۳۴۶۲۔ السلسۃ الصحیحۃ: ۱۱ ]
➍ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ يَحُوْلُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَ قَلْبِهٖ: یعنی حق واضح ہو جانے کے بعد بھی اگر کوئی اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم نہ مانے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کو یہ سزا ملتی ہے کہ وہ انسان اور اس کے دل کے درمیان حائل ہو جاتا ہے اور اس کے بعد اسے اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر لبیک کہنے کی توفیق نہیں ملتی، جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: « فَلَمَّا زَاغُوْۤا اَزَاغَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ »[ الصف: ۵ ]”جب وہ خود ٹیڑھے ہو گئے تو اللہ نے ان کے دلوں کو ٹیڑھا کر دیا۔“ آیت کے یہ معنی ابن عباس رضی اللہ عنھما اور جمہو رمفسرین نے بیان فرمائے ہیں۔ سورۂ انعام کی آیت (۱۰۹، ۱۱۰) میں بھی یہی بات بیان ہوئی ہے، جنگ تبوک میں کعب بن مالک رضی اللہ عنہ فوری طور پر نہ نکل سکے تو بعد میں جانے کی توفیق ہی نہیں ملی، یہ الگ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے صدق اور انابت کی وجہ سے انھیں توبہ کی توفیق دی اور قرآن میں ان کا ذکر خیر فرمایا۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ اس آیت کی تشریح یہ فرماتے ہیں: ”حکم بجا لانے میں دیر نہ کرو، شاید اس وقت دل ایسا نہ رہے، دل اللہ کے ہاتھ میں ہے۔“(موضح) بعض مفسرین نے اس کی تفسیر یہ فرمائی کہ اللہ کے حائل ہونے سے مراد موت ہے، یعنی موت آنے سے پہلے اطاعت بجا لاؤ، اس کے بعد « وَ اَنَّهٗۤ اِلَيْهِ تُحْشَرُوْنَ »(اور جان لو کہ یہ یقینی حقیقت ہے کہ تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے) کے جملے سے بھی اس معنی کی تائید ہوتی ہے۔ اصل یہ ہے کہ دونوں معنی ہی مراد ہو سکتے ہیں اور ان کا آپس میں کوئی تضاد نہیں۔