(آیت 9) ➊ اِذْ تَسْتَغِيْثُوْنَ رَبَّكُمْ …: اپنی تعداد، تیاری، اسلحہ کی کے تین گنا سے زیادہ اور ہر قسم کے اسلحے سے لیس ہونے کی وجہ سے سب مسلمان ہی اپنے پروردگار سے مدد کے لیے فریاد کر رہے تھے۔ خصوصاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو نہایت عجز اور الحاح کے ساتھ دعا فرما رہے تھے۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب بدر کا دن ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کی طرف دیکھا، وہ ایک ہزار تھے اور آپ کے ساتھی تین سو انیس آدمی تھے، تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلے کی طرف رخ کرکے ہاتھ پھیلا دیے اور اپنے رب سے بلند آواز سے فریاد کرنے لگے: ”اے اللہ! تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا ہے وہ مجھ سے پورا کر، اے اللہ! تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا ہے وہ مجھ سے پورا کر۔ اے اللہ! اگر اہل اسلام کی یہ جماعت ہلاک ہو گئی تو پھر زمین میں تیری عبادت نہیں کی جائے گی۔“ آپ اپنے رب سے بلند آواز سے فریاد کرتے رہے اور ہاتھ پھیلائے ہوئے دعا کرتے رہے، یہاں تک کہ آپ کی چادر کندھوں سے گر گئی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کے پاس آئے، آپ کی چادر پکڑی، اسے آپ کے کندھوں پر ڈالا، پھر پیچھے سے آپ سے چمٹ گئے اور کہا: ”اے اللہ کے نبی! آپ کا اپنے رب کو قسم دینا آپ کے لیے کافی ہے، کیونکہ یقینا وہ آپ سے کیا ہوا وعدہ پورا کرے گا۔“ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری: « اِذْ تَسْتَغِيْثُوْنَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ » پھر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے ساتھ آپ کی مدد فرمائی۔ [ مسلم، الجہاد، باب الإمداد بالملائکۃ فی غزوۃ بدر…: ۱۷۶۳ ] ابن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے کہنے کے بعد آپ یہ کہتے ہوئے نکلے: « سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَ يُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ »[ القمر: ۴۵ ]”یہ جماعت شکست کھائے گی اور یہ لوگ پیٹھیں پھیر کر بھاگیں گے۔“[ بخاری، المغازی، باب قول اللہ تعالٰی: «إذ تستغیثون ربکم…»: ۳۹۵۳ ]
➋ اَنِّيْ مُمِدُّكُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰٓىِٕكَةِ مُرْدِفِيْنَ: ایک دوسرے کے پیچھے، یعنی پے در پے آنے والے ہیں۔ چنانچہ بدر میں فرشتے نازل ہوئے، جیسا کہ صحیح بخاری میں ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے دن فرمایا: ”یہ جبریل ہیں، اپنے گھوڑے کے سر (لگام) کو پکڑے ہوئے ہیں، لڑائی کے ہتھیار پہنے ہوئے ہیں۔“[ بخاری، المغازی، باب شہود الملائکۃ بدراً: ۳۹۹۵ ] یہاں ایک ہزار فرشتے اترنے کے وعدے کا ذکر ہے جو واقعی اترے۔ رفاعہ بن رافع قرظی بدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جبریل علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، پوچھا: ”تم اہل بدر کو اپنے میں کیسا شمار کرتے ہو؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمانوں کے سب سے بہتر لوگ۔“ یا اس کے ہم معنی کوئی بات کہی۔ (جبریل علیہ السلام نے) فرمایا: ”اسی طرح وہ فرشتے بھی (افضل) ہیں جو بدر میں شریک ہوئے تھے۔“[ بخاری، المغازی، باب شہود الملائکۃ بدرًا: ۳۹۹۲ ] سورۂ آل عمران میں تین ہزار اور پانچ ہزار فرشتوں کے وعدے کا ذکر ہے، تطبیق کے لیے دیکھیے آل عمران (۱۲۴، ۱۲۵)۔