تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 179)وَ لَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ: لِجَهَنَّمَ میں لام عاقبت (برائے انجام) بھی ہو سکتا ہے، یعنی اپنے حواس سے صحیح فائدہ نہ اٹھانے کی وجہ سے وہ انجام کار جہنم میں جائیں گے، گویا انھیں جہنم ہی کے لیے پیدا کیا گیا ہے اور لام غایت کا بھی ہو سکتا ہے، یعنی کائنات کو بناتے ہوئے اللہ تعالیٰ کو آئندہ کی ہر بات کا علم تھا کہ فلاں جن یا انسان نے دنیا میں جا کر دوزخیوں والے کام کرنے تھے، اسی علم کے مطابق اس نے سب کچھ لکھ دیا تھا، اس کا نام قضا و قدر ہے، آگے اہل جہنم کی صفات بیان ہوئی ہیں کہ جن میں یہ صفات ہوں وہ ہدایت قبول نہیں کیا کرتے، گو اللہ کا شریعت اور انبیاء کے بھیجنے کا مقصد یہی ہے کہ انسان اللہ کی عبادت کرے، مگر اسے پہلے ہی یہ بھی علم ہے کہ کون شریعت پر چلے گا اور کون نہیں چلے گا۔ علماء نے تقدیر میں اور انسان کے مجبور ہونے میں فرق کی وضاحت فرمائی ہے۔

لَهُمْ قُلُوْبٌ لَّا يَفْقَهُوْنَ بِهَا …: یعنی اللہ تعالیٰ نے انھیں دل، آنکھیں اور کان تو اس لیے دیے ہیں کہ وہ ان سے فائدہ اٹھا کر اپنے مالک کو پہچانیں، کائنات اور اپنی ذات میں اس کی نشانیوں کا مشاہدہ کریں، حق کی بات غور سے سنیں اور اسے قبول کریں، مگر جب انھوں نے ان سے فائدہ نہیں اٹھایا تو وہ انعام (چوپاؤں) کی طرح بلکہ ان سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے ثابت ہوئے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے چوپاؤں کی طبیعت میں جو تقاضے رکھے ہیں اور جس مقصد کے لیے وہ پیدا ہوئے ہیں وہ بخوبی پورا کر رہے ہیں، اس کے برعکس کفار اپنے مقصدِ حیات، یعنی عبادت کے بجائے اپنے ارادہ و اختیار سے اپنے خالق کی نافرمانی کر رہے ہیں۔

اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْغٰفِلُوْنَ: یعنی اپنے مقصدِ حیات سے غافل ہیں اور مرنے کے بعد کی زندگی اور جواب دہی سے بے فکر ہیں۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچاننا اور ان کے احکام کو سیکھنا ہر شخص پر فرض ہے، اگر کوئی ایسا نہ کرے گا تو جہنم میں جائے گا۔ (موضح)



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.