(آیت 172) ➊ وَ اِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْۢ بَنِيْۤ اٰدَمَ …: یہاں تک رسولوں اور کتابوں کے ذریعے سے بنی آدم کی ہدایت کا جو اہتمام فرمایا اس کا ذکر تھا، اب کائنات میں اور خود انسان کی ذات (اَنْفُسِهِمْ)میں ہدایت کی جو دلیلیں اللہ تعالیٰ نے رکھی ہیں ان کا ذکر ہے۔ اہل علم نے اس آیت کی دو تفسیریں بیان کی ہیں، ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں یہ بات رکھ دی ہے کہ وہ یہ جانے کہ میرا ایک رب ہے، جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور وہی مجھے روزی دیتا ہے اور یہ بات جب اللہ تعالیٰ آدم علیہ السلام کی اولاد کو نسلاً بعد نسل پیدا کرتا ہے اور بنی آدم میں سے کسی کی پشت سے اس کا نطفہ جدا کرکے ماں کے رحم میں اس کی اولاد پیدا کرتا ہے، اسی وقت اس اولاد کی فطرت میں رکھ کر اس کے نفس اور اس کی ذات میں اپنے رب ہونے کے اتنے دلائل رکھ دیتا ہے گویا خود اسے اپنے آپ پر گواہ بنا دیتا ہے کہ اس کا رب اللہ ہے۔ گویا وہ پیدا ہی اسلام پر ہوتا ہے۔ ایک بوند جو جونک بنی، پھر مضغہ بنی، پھر ہڈیاں، پھر کامل اعضا والا جان دار انسان، یہ اور بے شمار نشانیاں خود اس کی ذات اور کائنات میں اس بات کی کافی شہادت ہیں کہ اس کا ایک رب ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: « سَنُرِيْهِمْ اٰيٰتِنَا فِي الْاٰفَاقِ وَ فِيْۤ اَنْفُسِهِمْ حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ اَنَّهُ الْحَقُّ »[ حٰمٓ السجدۃ: ۵۳ ]”عنقریب ہم انھیں اپنی نشانیاں دنیا کے کناروں اور ان کے نفسوں میں دکھلائیں گے، یہاں تک کہ ان کے لیے واضح ہو جائے کہ یقینا یہی حق ہے۔“ اور فرمایا: « وَ فِي الْاَرْضِ اٰيٰتٌ لِّلْمُوْقِنِيْنَ (20) وَ فِيْۤ اَنْفُسِكُمْ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ »[ الذاریات: ۲۰، ۲۱ ]”اور زمین میں یقین کرنے والوں کے لیے کئی نشانیاں ہیں اور تمھارے نفسوں میں بھی تو کیا تم نہیں دیکھتے؟“ اور شہادت ضروری نہیں زبان ہی سے ہو، قرآن مجید کے مطابق حالت کی بھی شہادت ہوتی ہے، جیسا کہ فرمایا: « مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِيْنَ اَنْ يَّعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللّٰهِ شٰهِدِيْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ »[ التوبۃ: ۱۷ ]”مشرکوں کا کبھی حق نہیں کہ وہ اللہ کی مسجدیں آباد کریں، اس حال میں کہ وہ اپنے آپ پر کفر کی شہادت دینے والے ہیں۔“ اور فرمایا: « اِنَّ الْاِنْسَانَ لِرَبِّهٖ لَكَنُوْدٌ (6) وَ اِنَّهٗ عَلٰى ذٰلِكَ لَشَهِيْدٌ »[ العادیات: ۶، ۷ ]”بے شک انسان اپنے رب کا یقینا بہت ناشکرا ہے اور بے شک وہ اس بات پر یقینا خود گواہ ہے۔“
معلوم ہوا کہ انسان کی فطرت ہی توحید ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔“[ بخاری، الجنائز، باب ما قیل فی أولاد المشرکین: ۱۳۸۵ ] اس لیے انسان کی ذات میں اور کائنات میں موجود اللہ تعالیٰ کے رب واحد ہونے کے دلائل ہی اس بات کے لیے کافی ہیں کہ انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے۔ اس لیے بعض علماء نے کہا کہ اگر کوئی بھی رسول نہ آتا تو انسان پر عقل، فطرت سلیمہ اور اپنی ذات اور کائنات میں موجود توحید کے بے شمار دلائل کی وجہ سے شرک سے بچنا لازم تھا، اگر وہ شرک کرے تو اللہ تعالیٰ کو حق ہے کہ اس سے مؤاخذہ فرمائے۔ مگر قرآن مجید سے اللہ تعالیٰ کا یہ بے حد و حساب رحم و کرم ثابت ہے کہ انسان کے نفس پر اس کی اپنی شہادت کے باوجود وہ رسولوں کے ذریعے سے حق واضح کیے بغیر عذاب نہیں دیتا، فرمایا: « وَ مَا كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا »[ بنی إسرائیل: ۱۵ ]”اور ہم کبھی عذاب دینے والے نہیں، یہاں تک کہ کوئی پیغام پہنچانے والا بھیجیں۔“ اس کی مثال یوں سمجھیے کہ دیکھنے کے لیے آنکھ میں نور ہونا بھی ضروری ہے اور سورج، چاند یا کسی اور چیز کے ذریعے سے روشنی ہونا بھی ضروری ہے، آنکھ میں روشنی نہ ہو یا باہر روشنی نہ ہو تو نظر نہیں آتا۔ فطرت میں رکھی ہوئی عقل اور کائنات کے دلائل رب کی پہچان کے لیے آنکھ کے نور کی طرح ہیں اور پیغمبر سورج اور چاند کی طرح اس کے لیے دلائل کو روشن کرکے سمجھانے والے ہیں۔ شیخ صالح آل الشیخ نے شرح عقیدہ طحاویہ میں فرمایا کہ اہل السنہ کے بہت سے ائمہ مثلاً شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ، ابن القیم، ابن کثیر، ابن ابی العز حنفی شارح طحاویہ، شیخ عبد الرحمان سعدی اور دوسرے کئی ائمہ رحمھم اللہ نے ”وَإِذْ اَخَذَ رَبُّكَ“ کی یہی تفسیر اختیارفرمائی ہے۔ واضح رہے کہ آنکھ اور سورج کی روشنی کی مثال ان ائمہ کی تفسیر کا حصہ نہیں۔
دوسری تفسیر وہ میثاق (عہد و پیمان) ہے جو اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی پشت سے تمام اولادِ آدم کو نکال کر ان سے لیا اور جو عموماً عہد الست سے مشہور ہے، وہ عبد اللہ بن عباس اور دوسرے صحابہ رضی اللہ عنھم سے منقول ہے۔ چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نعمان (نون کے فتحہ کے ساتھ) یعنی عرفہ میں آدم علیہ السلام کی پشت سے میثاق (عہد و پیمان) لیا، چنانچہ اس کی پشت سے تمام اولاد جو اللہ تعالیٰ نے پیدا کرنی تھی نکالی اور اس کے آگے بکھیر دی، پھر ان سے آمنے سامنے بات کی، فرمایا: « اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ »”کیا میں واقعی تمھارا رب نہیں ہوں؟“ انھوں نے کہا: « بَلٰى » کیوں نہیں، ہم نے شہادت دی! (ایسا نہ ہو) کہ تم قیامت کے دن کہو ہم اس سے غافل تھے۔ آخر آیات تک۔ [ أحمد: 272/1، ح: ۲۴۵۹۔ مستدرک حاکم: 544/2، ح: ۴۰۰۰ ] حاکم اور ذہبی نے اس حدیث کو صحیح فرمایا ہے، شوکانی اور بہت سے علماء نے اس تفسیر کو ترجیح دی ہے، مگر قرآن کے الفاظ اور حدیث کے الفاظ میں کئی لحاظ سے فرق ہے، ایک تو یہ کہ آیت میں « مِنْۢ بَنِيْۤ اٰدَمَ » ہے ” مِنْ آدَمَ “ نہیں، دوسرا « مِنْ ظُهُوْرِهِمْ » ہے ” مِنْ ظَهْرِهِ “ نہیں۔ تیسرا « ذُرِّيَّتَهُمْ » ہے، ” ذُرِّيَّتَهُ“ نہیں، چوتھا یہ کہ فرمایا: « اَشْهَدَهُمْ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ » گواہ کو وہ بات یاد تو ہونی چاہیے جس کی گواہی اس نے دینی ہے جبکہ وہ عہد کسی کو یاد نہیں، البتہ انسان کے نفس اور کائنات میں اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور توحید کے دلائل کا وہ خود فطری شاہد ہے، یہ الگ بات ہے کہ گندے عقیدوں والوں کے ساتھ مل کر اس کی فطرت پر پردہ پڑ گیا ہو۔ اگر کوئی کہے کہ بے شک آدم علیہ السلام کی پشت سے نکلتے وقت کیا ہوا عہد ہمیں یاد نہیں مگر پیغمبروں کا اس میثاق کو یاد کرا دینا ہی کافی ہے تو حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس کا جواب دیا ہے کہ مشرک تو پیغمبروں کی کوئی بات صحیح مانتے ہی نہیں تھے، ان کا یاد کرا دینا ان پر حجت کیسے بنایا جا سکتا ہے۔ (جب کہ اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن اس گواہ بنانے کو بطور حجت ذکر فرمایا ہے، جس طرح رسولوں کے بھیجنے کو بطور حجت ذکر فرمایا ہے) غرض ابن ابی العز نے شرح عقیدہ طحاویہ میں آیت اور احادیث کے درمیان دس فرق بیان کیے ہیں، اس لیے دونوں الگ الگ ہی۔ ہاں! تطبیق کے طور پر کہا جا سکتا ہے کہ بنی آدم کی پشتوں سے ان کی اولادوں کو نکالنا بھی آدم علیہ السلام کی پشت سے اس کی اولاد کو نکالنے ہی کی تفصیل ہے۔ (واللہ اعلم)
➋ اَنْ تَقُوْلُوْا: یہ اصل میں ” لِئَلَّا تَقُوْلُوْا “ یا ” كَرَاهَةَ اَنْ تَقُوْلُوْا “ ہے، یعنی یہ عہد تم سے اس لیے لیا کہ ایسا نہ ہو کہ تم دنیا میں شرک و نافرمانی کی روش اختیار کرو اور قیامت کے روز تم سے باز پرس کی جائے تویہ کہہ کر اپنی صفائی پیش کرنے لگو کہ ہم تو اس سے بے خبر تھے۔ (ابن کثیر)