(آیت 156) ➊ قَالَ عَذَابِيْۤ اُصِيْبُ بِهٖ مَنْ اَشَآءُ …: یعنی میرا عذاب تو صرف ان کافروں اور نافرمانوں کے لیے مخصوص ہے جنھیں میں ان کی نافرمانی پر سزا دینا چاہتا ہوں، کیونکہ عذاب دینا میری غالب صفت نہیں بلکہ وہ میرا ایک فعل ہے جو عدل کے تقاضے کے نتیجے میں ظاہر ہوتا ہے۔ میری اصل اور غالب صفت جس کے ساتھ کائنات کا نظام چل رہا ہے، وہ میری رحمت ہے، جس سے کائنات کی ہر چیز فیض یاب ہو رہی ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے کھڑے ہوئے اور ہم بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہو گئے، اسی اثنا میں ایک اعرابی نے نماز کی حالت میں کہہ دیا: ”اے اللہ! مجھ پر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر رحم فرما اور ہمارے ساتھ کسی اور پر رحم نہ فرما۔“ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو اس اعرابی سے فرمایا: [ لَقَدْ حَجَّرْتَ وَاسِعًا ]”تو نے اللہ تعالیٰ کی رحمت واسع کو محدود کر دیا۔“[ بخاری، الأدب، باب رحمۃ الناس والبھائم: ۶۰۱۰ ] اگر اللہ تعالیٰ کی رحمت دنیا میں بھی خاص نیکو کاروں کے لیے ہوتی اور کفر و نافرمانی پر فوراً مؤاخذہ ہوتا تو وہ روئے زمین پر کسی چلنے والے کو نہ چھوڑتا۔ دیکھیے سورۂ نحل (۶۱) اور فاطر (۴۵) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک اللہ تعالیٰ کی سو رحمتیں ہیںِ، اس میں سے ایک رحمت جن و انس، جانوروں اور زہریلے سانپوں اور کیڑوں میں اتاری، اسی کے ساتھ وہ ایک دوسرے پر شفقت اور ایک دوسرے پر رحم کرتے ہیں اور اسی کے ساتھ وحشی جانور اپنے بچوں پر شفقت کرتے ہیں اور ننانویں رحمتیں اللہ تعالیٰ نے مؤخر کر رکھی ہیں جن کے ساتھ وہ اپنے بندوں پر رحم فرمائے گا۔“[ مسلم، التوبۃ، باب فی سعۃ رحمۃ اللہ تعالٰی…: ۲۷۵۲، ۲۷۵۳، عن أبی ھریرۃ رضی اللہ عنہ ]
➋ فَسَاَكْتُبُهَا لِلَّذِيْنَ يَتَّقُوْنَ: ” وَ رَحْمَتِيْ وَ سِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ “ کے الفاظ میں ابلیس اور تمام کفار بھی شامل تھے، کیونکہ ” كُلَّ شَيْءٍ “ میں یہ سب داخل ہیں، اس لیے یہ بتانے کے لیے کہ یہ سب میری رحمت سے محروم ہیں، فرمایا کہ میں اپنی رحمت صرف ان لوگوں کے لیے لکھوں گا جو ڈرتے ہیں اور ان تمام صفات کے حامل ہیں جو اس آیت اور اس سے اگلی آیت میں مذکور ہیں۔ یہ بھی وضاحت فرما دی کہ نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کے بعد اس رحمت کے مستحق صرف وہ ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متبع ہوں گے۔
➌ وَ يُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ: دوسرے ارکان و فرائض کو چھوڑ کر خاص طور پر زکوٰۃ کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ یہودیوں میں مال کی محبت بہت پائی جاتی تھی جس کی بنا پر وہ جتنی کوتاہی ادائے زکوٰۃ میں کرتے تھے کوئی اور فریضہ ادا کرنے میں نہیں کرتے تھے، حتیٰ کہ اس محبت نے زکوٰۃ دینے میں کوتاہی سے آگے بڑھ کر انھیں سود خوری پر لگا دیا۔ وہی حال اب امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے، مگر جس پر میرے رب کا خاص کرم ہو۔
➍ وَ الَّذِيْنَ هُمْ بِاٰيٰتِنَا يُؤْمِنُوْنَ: یہ آیت تمام احکام شریعت پر حاوی ہے۔ تقویٰ (نافرمانی سے پرہیز)، زکوٰۃ (حقوق مالی) اور اللہ کی آیات پر ایمان میں ہر قسم کی معرفت آ جاتی ہے، یہاں موسیٰ علیہ السلام کی دعا کا جواب ختم ہو گیا، اب اگلی آیت سے موقع کی مناسبت سے یہود و نصاریٰ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اختیار کرنے کی دعوت دی جا رہی ہے اور بتایا جا رہا ہے کہ دنیا و آخرت میں رحمتِ الٰہی کے حصول کے لیے مندرجہ بالا صفات کے علاوہ ”نبی امی“ کی پیروی بھی ضروری ہے۔