تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 143)وَ لَمَّا جَآءَ مُوْسٰى لِمِيْقَاتِنَا: میقات سے مراد مقرر کردہ وقت ہے، چونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بلاوا اور موسیٰ علیہ السلام کی طرف سے حاضری کا وعدہ تھا، اس لیے وٰعَدْنَا (باب مفاعلہ) استعمال فرمایا جو دو فریقوں کے درمیان ہوتا ہے۔

وَ كَلَّمَهٗ رَبُّهٗ: یعنی کسی واسطے کے بغیر کلام فرمایا۔ دیکھیے سورۂ بقرہ (۲۵۳) اور نساء (۱۶۴) یہ ان کا اللہ سے ہم کلام ہونے کا دوسرا موقع تھا۔ پہلے موقعے کا ذکر سورۂ طٰہ (۱۲) میں ہے، جب آگ لینے گئے تھے اور رسالت سے سرفراز ہوئے تھے۔ واسطے کے بغیر اس لیے کہ فرشتے کے ذریعے سے یا دل میں ڈال کر تو ہر نبی سے کلام ہوتا تھا، جسے وحی کہتے ہیں، پھر موسیٰ علیہ السلام کی خصوصیت کیا ہوئی؟ جس کا ذکر تمام لوگ قیامت کے دن موسیٰ علیہ السلام سے کرکے سفارش کی درخواست کریں گے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے کلام کیا۔ مشرک یونانیوں کے فلسفی عقائد سے متاثر لوگوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کلام کر ہی نہیں سکتا، اس لیے یہاں ایسا کلام مراد ہے جس میں نہ لفظ تھے نہ آواز۔ کوئی ان سے پوچھے کہ یہ بات تمھیں قرآن مجید کی کس آیت یا حدیث سے معلوم ہوئی؟ قرآن مجید نے تو موسیٰ علیہ السلام کے لیے کلام کا لفظ استعمال فرمایا اور ندا کا بھی۔ دیکھیے سورۂ شعراء (۱۰) اللہ کے کلام کرنے کے منکروں نے کہا، کلام سے مراد کلام نفسی ہے جو دل میں ہوتا ہے۔ مگر وہ تو سنائی نہیں دیتا اور وہ تو گونگوں کے دل میں بھی ہوتا ہے، اسے آپ سوچ، فکراور ارادہ وغیرہ کہہ سکتے ہیں، مگر الفاظ کے نکلے بغیر کلام کیسے بن گیا؟ تم نے اللہ تعالیٰ کی کیا قدر کی کہ اسے بولنے سے معذور قرار دے کر گونگوں کے برابر کر دیا!! یہ لوگ قرآن کو بھی اللہ کا کلام نہیں مانتے، بلکہ اسے مخلوق کہتے ہیں کہ جو مفہوم اور معانی اللہ تعالیٰ کی ذات کے اندر موجود تھے اللہ تعالیٰ نے وہ معانی موسیٰ علیہ السلام کو پہنچانے کے لیے ہوا میں ایسے لفظ پیدا کر دیے جو وہ مفہوم ادا کرتے ہیں۔ اس لیے قرآن اللہ کا کلام نہیں، اس کی مخلوق ہے۔ مقصد یہ تھا کہ مخلوق تو فنا بھی ہو سکتی ہے، اس لیے قرآن سے جان چھڑانے کا ایک حیلہ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ قرآن اللہ کی مخلوق تھا، فنا ہو گیا، لہٰذا اب عمل کی ضرورت نہیں۔ ان لوگوں سے بس ایک ہی سوال ہے جو امام اہل السنہ احمد ابن حنبل رحمہ اللہ نے ان سے بار بار اور مسلسل کیا کہ بتاؤ یہ بات اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کہاں فرمائی ہے؟! یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی فرمان اس کے ثبوت کے لیے پیش کرو؟ محض فلسفیوں کے دماغ کی خرابی سے دین کبھی ثابت نہیں ہو سکتا۔ تو کلام اللہ کو مخلوق کہنے والے اور اسے اللہ کی صفت ماننے کے منکر آخر وقت تک یہ مطالبہ پورا نہ کر سکے اور نہ کر سکتے ہیں۔

قَالَ رَبِّ اَرِنِيْۤ اَنْظُرْ اِلَيْكَ …: فرشتے کے واسطے کے بغیر اللہ تعالیٰ کے کلام کی لذت سے موسیٰ علیہ السلام کے دل میں ایسا شوق پیدا ہوا کہ اللہ تعالیٰ سے درخواست کر دی کہ پروردگارا! اپنا آپ مجھے دکھا کہ میں تجھے دیکھوں، فرمایا: « لَنْ تَرٰىنِيْ » تو مجھے ہر گز نہ دیکھے گا۔ یعنی دنیا میں اللہ تعالیٰ نے کسی آنکھ میں یہ طاقت نہیں رکھی کہ اللہ تعالیٰ کے دیدار کو برداشت کر سکے۔ رہا آخرت میں اللہ تعالیٰ کا دیدار تو وہ مومنوں کے حق میں قرآن مجید کی آیات اور متعدد صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ قیامہ (۲۲، ۲۳) شاہ عبد القادر رحمہ اللہ نے اس مقام پر لکھا ہے: یقین ہے کہ آخرت میں اللہ کو دیکھنا ہے، گمراہ لوگ منکر ہیں کہ ان کے نصیب میں نہیں۔ (موضح)

وَ لٰكِنِ انْظُرْ اِلَى الْجَبَلِ: یعنی جب میں پہاڑ پر تجلی فرماؤں تو دیکھ اگر…۔ یہ مشاہدہ کروا کر موسیٰ علیہ السلام کی دل جوئی فرمائی کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کو دیکھنا کوئی برداشت ہی نہیں کر سکتا، تاکہ وہ درخواست قبول نہ ہونے پر دل گیر نہ ہوں۔

فَلَمَّا تَجَلّٰى رَبُّهٗ لِلْجَبَلِ …: تَجَلّٰى یہ جَلَا يَجْلُوْ جَلْوَةً سے باب تفعل ہے۔ جَلَا کا معنی ظاہر کرنا، پردہ ہٹانا ہے، جیسا کہ شاعر نے کہا ہے

وَجَلَا السُّيُوْلُ عَنِ الطُّلُوْلِ كَأَنَّهَا

زُبُرٌ تُجِدُّ مُتُوْنَهَا اَقْلَامُهَا


سیلابوں نے پرانے کھنڈر اس طرح ظاہر کر دیے جیسے وہ ایسی کتابیں ہیں جن کے قلم ان کے متون کو نیا کر دیتے ہیں۔

تَجَلّٰى کا معنی ظاہر ہوا۔ دَكًّا مصدر ہے۔ دَكَّ يَدُكُّ (ن) اور دَقَّ يَدُقُّ قریب قریب معنی رکھتے ہیں، یعنی کسی چیز کو کوٹ کر ریزہ ریزہ کر دینا۔ یہاں دَكًّا مفعول مطلق ہے، یعنی دَكَّهُ دَكًّا کہ اسے ریزہ ریزہ کر دیا۔ قرآن مجید میں ہے: « اِذَا دُكَّتِ الْاَرْضُ دَكًّا دَكًّا » [ الفجر: ۲۱ ] اور « وَ حُمِلَتِ الْاَرْضُ وَ الْجِبَالُ فَدُكَّتَا دَكَّةً وَّاحِدَةً » ‏‏‏‏ [ الحآقۃ: ۱۴ ] اَرْضٌ دَكَّاءٌ اس زمین کو بھی کہتے ہیں جو برابر اور ہموار ہو، یعنی جب رب تعالیٰ پہاڑ کے لیے ظاہر ہوا تو اس جلوے نے پہاڑ کو زمین کے برابر کر دیا اور موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کا جلوہ تو کجا پہاڑ کی حالت دیکھنے کی تاب بھی نہ لا سکے، بلکہ بے ہوش ہو کر گر پڑے۔ بعض لوگوں نے صَعِقًا کا معنی کیا ہے کہ فوت ہو کر گر پڑے، اگرچہ صَعِقًا اس معنی میں بھی آتا ہے، مگر فَلَمَّاۤ اَفَاقَ (جب اسے ہوش آیا) کے الفاظ بتاتے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام فوت نہیں بلکہ بے ہوش ہوئے تھے۔ انس رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ کے اس قول سے متعلق بیان کرتے ہیں: « فَلَمَّا تَجَلّٰى رَبُّهٗ لِلْجَبَلِ جَعَلَهٗ دَكًّا » [ الأعراف: ۱۴۳] فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (سمجھانے کے لیے) اپنا انگوٹھا انگلی کے پورے کے قریب رکھا (اور فرمایا) تو پہاڑ دھنس گیا۔ [ ابن أبی عاصم فی السنۃ: ۴۸۰، و صححہ الألبانی ]

قَالَ سُبْحٰنَكَ تُبْتُ اِلَيْكَ: تو پاک ہے (کہ تجھے دنیا میں کوئی دیکھ سکے) میں توبہ کرتا ہوں (اس بات سے کہ تیری اجازت کے بغیر تجھے دیکھنے کی درخواست کر بیٹھا)۔

وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِيْنَ: اور میں سب سے پہلے ایمان لانے والا ہوں، یعنی تجھ پر اور تیری عظمت و جلال پر، یا اس پر کہ کوئی تجھے قیامت سے پہلے نہیں دیکھ سکتا۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: موسیٰ علیہ السلام کو حق تعالیٰ نے بزرگی دی کہ فرشتے کے بغیر خود کلام فرمایا، ان کو شوق ہوا کہ دیدار بھی کروں، اس کی برداشت نہ ہوئی۔ اس سے معلوم ہوا کہ حق تعالیٰ کو دیکھنا ممکن ہے، کیونکہ نمود (ظہور) ہوا تھا پہاڑ کی طرف، لیکن دنیا کے وجود کو برداشت نہ ہوئی مگر آخرت کے وجود کو برداشت ہو گی، وہاں دیکھنا یقینی ہے۔ (موضح)



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.