(آیت 116،115) ➊ وَ اسْتَرْهَبُوْهُمْ: ”اَرْهَبَ يُرْهِبُ“ کا معنی ہے ڈرانا، خوف زدہ کرنا، ” وَ اسْتَرْهَبُوْهُمْ “ میں حروف زیادہ ہونے کی وجہ سے ترجمہ ”سخت خوف زدہ“ کیا ہے۔ جادوگروں نے اپنے غلبے کے یقینی اور موسیٰ علیہ السلام کے معجزے کو لوگوں کے سامنے بے وقعت ظاہر کرنے کے لیے پوچھا کہ تم پہلے اپنا معجزہ پیش کرو گے یا ہم اپنے جادو کے ہتھیار پیش کریں؟ موسیٰ علیہ السلام نے ان سے بڑھ کر شانِ بے نیازی سے فرمایا کہ تمھیں جو کچھ پیش کرنا ہے سب پیش کر لو۔ چونکہ مقابلے میں جس کی پہل ہو اسے ایک قسم کی برتری پہلے ہی حاصل ہوتی ہے، تم اس برتری سے فائدہ اٹھا لو، چنانچہ انھوں نے اپنی لاٹھیاں اور رسیاں زمین پر پھینک دیں تو ہر طرف زمین پر سانپ ہی سانپ دوڑتے ہوئے معلوم ہونے لگے، فرمایا: « فَاِذَا حِبَالُهُمْ وَ عِصِيُّهُمْ يُخَيَّلُ اِلَيْهِ مِنْ سِحْرِهِمْ اَنَّهَا تَسْعٰى »[ طٰہٰ: ۶۶ ]”تو اچانک ان کی رسیاں اور ان کی لاٹھیاں، اس کے خیال میں ڈالا جاتا تھا ان کے جادو کی وجہ سے کہ وہ دوڑ رہی ہیں۔“ یہاں بھی فرمایا کہ ”انھوں نے لوگوں کی آنکھوں پر جادو کر دیا اور انھیں سخت خوف زدہ کر دیا اور وہ بہت بڑا جادو لے کر آئے۔“ درحقیقت وہ زمانہ ہی جادو کے کمال کا تھا جس پر اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو ایسا معجزہ دیا جس کے سامنے جادو بے بس ہو۔
➋ سَحَرُوْۤا اَعْيُنَ النَّاسِ: اس سے معلوم ہوا کہ جادو سے کسی چیز کی حقیقت نہیں بدل جاتی، صرف دیکھنے میں وہ چیز دوسری نظر آتی ہے اور اس کا اثر محض خیال پر ہوتا ہے، چونکہ انسان کا جسم دماغ کے تابع ہے، اس لیے خیال کا نقصان یا فائدہ بعض اوقات جسم کو بھی ہوتا ہے، جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام نے بھی ان کا جادو دیکھ کر خوف محسوس کیا، فرمایا: « فَاَوْجَسَ فِيْ نَفْسِهٖ خِيْفَةً مُّوْسٰى »[ طٰہٰ: ۶۷ ]”تو موسیٰ نے اپنے دل میں ایک خوف محسوس کیا۔“ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی لبید بن اعصم کے جادو کی وجہ سے کچھ عرصہ بیمار رہے۔ اس لیے جادو کی تاثیر سے انکار درست نہیں۔ یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے ان کے جادو کو بہت بڑا قرار دیا ہے۔