(آیت 105) ➊ حَقِيْقٌ عَلٰۤى اَنْ لَّاۤ اَقُوْلَ عَلَى اللّٰهِ اِلَّا الْحَقَّ: کیونکہ میں اللہ کا رسول(پیغام پہنچانے والا) ہوں اور رسول کا کام یہ ہے کہ بھیجنے والے کا پیغام کسی کمی بیشی کے بغیر پہنچا دے، اس میں اپنی طرف سے کوئی تبدیلی نہ کرے، لہٰذا میری ہر بات صحیح اور سچی ہو گی۔ نافع کی قراء ت میں ہے: ” حَقِيْقٌ عَلَيَّ أَلَّا أَقُوْلَ عَلَي اللّٰهِ إِلَّا الْحَقَّ “ اس صورت میں ” حَقِيْقٌ “ کا معنی ہے واجب، یعنی مجھ پر واجب ہے کہ میں اللہ تعالیٰ پر حق کے سوا کچھ نہ کہوں۔ عاصم کی قراء ت میں وہی ہے جو ہم پڑھتے ہیں: « حَقِيْقٌ عَلٰۤى اَنْ لَّاۤ اَقُوْلَ عَلَى اللّٰهِ اِلَّا الْحَقَّ » اس صورت میں ” حَقِيْقٌ “ کا معنی ہے قائم، ثابت۔ ” حَقِيْقٌ “ مبتدا محذوف ” أَنَا “ کی خبر ہے، یعنی میں اس بات پر قائم ہوں کہ اللہ تعالیٰ پر حق کے سوا کچھ نہ کہوں۔
➋ فَاَرْسِلْ مَعِيَ بَنِيْۤ اِسْرَآءِيْلَ: یعنی انھیں غلامی سے آزاد کر، تاکہ وہ میرے ساتھ کسی ایسی جگہ چلے جائیں جہاں وہ اپنے اور تیرے رب کی پوری آزادی کے ساتھ عبادت کر سکیں۔ موسیٰ علیہ السلام کے اس مطالبے کا پس منظر یہ تھا کہ یوسف علیہ السلام کے زمانے میں ان کے بھائی مصر میں آکر آباد ہو گئے اور وہیں ان کی نسل پھیلی جو بنی اسرائیل کہلائی۔ یوسف علیہ السلام کی زندگی تک تو انھیں پوری طرح اقتدار حاصل رہا لیکن اس کے بعد فرعونوں نے انھیں غلام بنا لیا اور مصر میں ان کی حالت اچھوتوں سے بھی بدتر ہو گئی، وہ چونکہ مسلمان تھے اس لیے موسیٰ علیہ السلام کے مشن میں جہاں یہ چیز شامل تھی کہ فرعون کو توحید کی دعوت دی جائے وہاں یہ بھی ضروری تھا کہ اگر فرعون دعوت حق کو قبول نہ کرے اور بنی اسرائیل پر ظلم و ستم سے باز نہ آئے تو بنی اسرائیل کو اس کی غلامی سے نجات دلا کر کسی دوسری جگہ لے جایا جائے، جہاں وہ آزادی کے ساتھ اپنے رب کی عبادت کر سکیں۔ یہاں ” فَاَرْسِلْ “ میں حرف فاء تفریع کے لیے ہے، یعنی جب تو کھلے دلائل جاننے کے باوجود انکار پر قائم ہے تو بنی اسرائیل کو میرے ساتھ جانے دے۔ موسیٰ علیہ السلام نے یہ مطالبہ اس وقت کیا جب فرعون نے ہر طرح رب العالمین کا اقرار کرنے سے انکار کر دیا، جیسا کہ اس کی تفصیل دوسرے مقامات پر مذکور ہے۔