(آیت 100) ➊ اَوَ لَمْ يَهْدِ لِلَّذِيْنَ يَرِثُوْنَ الْاَرْضَ …: یعنی کیا بعد میں آنے والوں کو پہلوں کے حالات سن اور دیکھ کر یہ بات واضح طور پر معلوم نہیں ہوئی اور انھیں اس سے رہنمائی حاصل نہیں ہوئی کہ ہم چاہیں تو ان کی طرح ان کو بھی ان کے گناہوں میں پکڑ لیں۔
➋ وَ نَطْبَعُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ فَهُمْ لَا يَسْمَعُوْنَ: یعنی ہم ان کے گناہوں کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر کر دیتے ہیں تو وہ نصیحت کی کوئی بات نہیں سنتے، آخر کار اللہ کا عذاب آتا ہے اور وہ بھی تباہ کر دیے جاتے ہیں۔ ہمارے استاذ شیخ محمد عبدہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس فقرے کا یہ ترجمہ اس صورت میں ہو گا جب اسے ” اَصَبْنٰهُمْ بِذُنُوْبِهِمْ “ پر معطوف نہ مانا جائے (بلکہ نیا کلام مانا جائے) اور اگر اسے”اَصَبْنٰهُمْ بِذُنُوْبِهِمْ “ پر معطوف مانا جائے (اور ہمارے خیال میں زیادہ صحیح یہی ہے) تو ترجمہ یوں ہوگا:”اور ہم ان کے دلوں پر مہر لگا دیں کہ پھر وہ نصیحت کی کوئی بات نہ سن سکیں۔“ مگر ابن عاشور صاحبِ ”التحریر والتنویر“ اور محیی الدین الدرویش صاحبِ ”اعراب القرآن“ نے اس معنی کی تردید کی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ اگر اس کا عطف ” اَصَبْنٰهُمْ بِذُنُوْبِهِمْ “ پر مانا جائے تو معنی یہ ہو گا کہ اگر ہم چاہیں تو ان کے دل پر مہر کر دیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے ابھی تک مہر نہیں لگائی، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ان کے دلوں پر مہر لگ چکی ہے، اس لیے ” وَ نَطْبَعُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ “ نیا کلام ہے، اس کا عطف ” بِذُنُوْبِهِمْ “ پر درست نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنی زمین کے کسی حصے میں آباد فرماتا ہے انھیں ہر آن اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا چاہیے اور یہ جانتے ہوئے اپنی زندگی گزارنی چاہیے کہ اگر ظلم و فساد کا ارتکاب کریں گے تو اللہ تعالیٰ انھیں بھی اسی طرح تباہ کر دے گا جس طرح اس نے پہلی امتوں کو تباہ کر دیا۔ پہلی امتوں پر جو تباہی آئی وہ ناگہانی حادثہ نہ تھی بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ سزا تھی۔