(آیت 56،55) ➊ اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّ خُفْيَةً: ان دو آیات میں چار حکم ہیں، پہلا یہ کہ دعا عاجزی سے گڑ گڑا کر اور خشوع سے ہونی چاہیے اور دعا تنہائی میں کرنا مستحب اور بہتر ہے، کیونکہ اس سے ریا کو راستہ نہیں ملتا اور اخلاص میں خلل نہیں آتا۔
➋ اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ: دوسرا یہ کہ حدسے بڑھنا اﷲ تعالیٰ کو کسی صورت پسند نہیں۔ اس میں اﷲ کے ساتھ شرک کرنا یا کسی پر ظلم کرنا بھی شامل ہے اور ایسی چیز کی دعا کرنا جو نا ممکن ہو، مثلاً میں ہمیشہ زندہ رہوں، یا مجھے آخرت میں انبیاء کا مرتبہ حاصل ہو جائے، یا ایسی چیز کی دعا کرنا جس کے متعلق علم نہ ہو کہ اﷲ تعالیٰ کو اس کا مانگنا پسند ہے، جیسے نوح علیہ السلام کی اپنے بیٹے کے لیے دعا بھی حد سے تجاوز تھا۔ اسی طرح چیخنا چلانا اور مسنون دعائیں چھوڑ کر مقفی و مسجع کلام اور اشعار وغیرہ بھی حد سے تجاوز میں شامل ہیں۔ (شوکانی) ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ سفر کے دوران میں ہماری آوازیں تکبیر اور لا الٰہ الا اﷲ کے ساتھ بلند ہوئیں تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگو! اپنے آپ پر نرمی کرو (یعنی ذرا آہستہ پکارو)، کیونکہ تم کسی بہرے یا غائب کو نہیں پکار رہے، بلکہ جسے پکار رہے ہو وہ سننے والا ہے اور قریب بھی۔“[ بخاری، الجہاد والسیر، باب ما یکرہ من رفع الصوت فی التکبیر: ۲۹۹۲، ۶۳۸۹ ]
➌ وَ لَا تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَا: تیسرا یہ کہ زمین میں اس کی اصلاح کے بعد فساد مت کرو، یعنی اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی اور شرک کے کام مت کرو، کیونکہ اﷲ تعالیٰ کے ساتھ کفر اور گناہوں کا ارتکاب ہی ”فساد فی الارض“ ہے، فرمایا: «ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَيْدِي النَّاسِ» [ الروم: ۴۱ ]”خشکی اور سمندر میں فساد ظاہر ہو گیا اس کی وجہ سے جو لوگوں کے ہاتھوں نے کمایا۔“
➍ وَ ادْعُوْهُ خَوْفًا وَّ طَمَعًا: چوتھا یہ کہ دعا کرتے وقت اﷲ تعالیٰ کا خوف بھی ہو اور دل میں دعا کی قبولیت کی طمع بھی، اسی طرح جہنم سے خوف بھی ہو اور جنت کی طمع بھی۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ” یعنی اﷲ پر دلیر مت ہو اور نا امید بھی مت ہو۔“ طمع میں یہ چیز بھی داخل ہے کہ انسان دعا کے بعد مایوس نہ ہو، جیسا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کسی کی دعا اس وقت تک قبول ہوتی ہے جب تک وہ جلدی نہ کرے اور جلدی یہ ہے کہ کہے میں نے اپنے رب سے دعا کی، مگر اس نے قبول نہ کی۔“[ بخاری، الدعوات، باب یستجاب للعبد ما لم یعجل: ۶۳۴۰ ]
➎ کئی صوفیا کہتے ہیں کہ دعا کسی طمع اور خوف کے بغیر محض رب کی رضا کے لیے ہونی چاہیے، حتیٰ کہ ان میں سے بعض نے کہا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ جنت کو جلا دوں اور جہنم کو بجھا دوں، تاکہ لوگ کسی خوف اور طمع کے بغیر اﷲ کو یاد کریں۔ بعض کہتے ہیں کہ بس اﷲ تعالیٰ مجھ پر راضی ہو جائے، پھر خواہ مجھے جنت میں بھیج دے یا جہنم میں پھینک دے۔ یہ بات کتاب و سنت کے خلاف ہے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اﷲ تعالیٰ سے جنت کی دعا مانگتے اور جہنم سے پناہ مانگتے تھے۔ زیر تفسیر آیت بھی اس نظریے کے خلاف ہے اور دیگر بہت سی آیات بھی، مثلاً: «يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّ طَمَعًا» [ السجدۃ: ۱۶ ]”وہ اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے ہیں۔“ درحقیقت یہ بات اسلام کا لبادہ اوڑھنے والے بعض لوگوں نے جنت اور جہنم کو بے وقعت ٹھہرانے کے لیے بنائی ہے۔ جنت کی طمع اور جہنم سے خوف کوئی الگ چیز نہیں ہے، بلکہ جنت اﷲ کی رضا ہی سے حاصل ہو گی اور جہنم بھی اسی کے غضب کا نتیجہ ہے جس سے بچنا بھی اس کی رضا ہی سے ممکن ہو گا۔
➏ اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰهِ قَرِيْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِيْنَ: اس میں ترغیب ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی رحمت کے اصل حق دار وہی ہیں جو احسان کرنے والے ہیں یعنی اﷲ تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری بہتر سے بہتر انداز میں بجا لانے کی کوشش کرتے ہیں اور اعمالِ صالحہ پر دوام کرتے ہیں اور ” قَرِيْبٌ “ یہ ” فَعِيْلٌ“ کے وزن پر ہے، جب یہ مسافت کے لیے آئے تو اس میں تذکیر و تانیث برابر ہوتی ہے اور اگر نسب کے لیے ہو تو بلا اختلاف ” قَرِيْبَةٌ “ بولا جاتا ہے۔ یعنی مذکر اور مؤنث میں تاء کے ساتھ فرق کیا جاتا ہے۔ (شوکانی)