اہل کتاب کو زیادتی سے اور حد سے آگے بڑھ جانے سے اللہ تعالیٰ روک رہا ہے۔ عیسائی عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں حد سے نکل گئے تھے اور نبوت سے بڑھا کر الوہیت تک پہنچا رہے تھے۔ بجائے ان کی اطاعت کرنے کے عبادت کرنے لگے تھے، بلکہ اور بزرگان دین کی نسبت بھی ان کا عقیدہ خراب ہو چکا تھا، وہ انہیں بھی جو عیسائی دین کے عالم اور عامل تھے معصوم محض جاننے لگ گئے تھے۔
اور یہ خیال کر لیا تھا کہ جو کچھ یہ ائمہ دین کہہ دیں اس کا ماننا ہمارے لیے ضروری ہے، سچ و جھوٹ، حق و باطل، ہدایت و ضلالت کے پرکھنے کا کوئی حق ہمیں حاصل نہیں۔ جس کا ذکر قرآن کی اس آیت میں ہے آیت «اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَالْمَسِيْحَ ابْنَ مَرْيَمَ»[9-التوبة:31]
مسند احمد میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”مجھے تم ایسا نہ بڑھانا جیسا نصاریٰ نے عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کو بڑھایا، میں تو صرف ایک بندہ ہوں پس تم مجھے عبداللہ اور رسول اللہ کہنا۔ [صحیح بخاری:3445] یہ حدیث بخاری وغیرہ میں بھی ہے
اسی کی سند ایک حدیث میں ہے کہ کسی شخص نے آپ سے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اے ہمارے سردار اور سردار کے لڑکے، اے ہم سب سے بہتر اور بہتر کے لڑکے! تو آپ نے فرمایا ”لوگو اپنی بات کا خود خیال کر لیا کرو تمہیں شیطان بہکا نہ دے، میں محمد بن عبداللہ ہوں، میں اللہ کا غلام اور اس کا رسول ہوں، قسم اللہ کی میں نہیں چاہتا کہ تم مجھے میرے مرتبے سے بڑھا دو۔“[سنن نسائی:10078،قال الشيخ الألباني:صحیح]
پھر فرماتا ہے اللہ پر افتراء نہ باندھو، اس سے بیوی اور اولاد کو منسوب نہ کرو، اللہ اس سے پاک ہے، اس سے دور ہے، اس سے بلند و بالا ہے، اس کی بڑائی اور عزت میں کوئی اس کا شریک نہیں، اس کے سوا نہ تو کوئی معبود اور نہ رب ہے۔ مسیح عیسیٰ بن مریم علیہ السلام رسول اللہ ہیں، وہ اللہ کے غلاموں میں سے ایک غلام ہیں اور اس کی مخلوق ہیں، وہ صرف کلمہ کن کے کہنے سے پیدا ہوئے ہیں۔ [تفسیر ابن ابی حاتم:1123/4]
جس کلمہ کو لے کر جبرائیل علیہ السلام مریم صدیقہ علیہا السلام کے پاس گئے اور اللہ کی اجازت سے اسے ان میں پھونک دیا پس عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے۔ چونکہ محض اسی کلمہ سے بغیر باپ کے آپ پیدا ہوئے، اس لیے خصوصیت سے کلمتہ اللہ کہا گیا۔
قرآن کی ایک اور آیت میں ہے آیت «مَا الْمَسِيْحُ ابْنُ مَرْيَمَ اِلَّا رَسُوْلٌ ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ»[5-المائدة:75] ” یعنی مسیح بن مریم صرف رسول اللہ ہیں ان سے پہلے بھی بہت سے رسول گذر چکے ہیں “ ان کی والدہ سچی ہیں، یہ دونوں کھانا کھایا کرتے تھے۔
اور آیت میں ہے «اِنَّ مَثَلَ عِيْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَ ۭخَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ»[3-آل عمران:59] ” عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی طرح ہے جسے مٹی سے بنا کر فرمایا ہو جا پس وہ ہو گیا۔ “
قرآن کریم اور جگہ فرماتا ہے آیت «وَالَّتِيْٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيْهَا مِنْ رُّوْحِنَا وَجَعَلْنٰهَا وَابْنَهَآ اٰيَةً لِّـلْعٰلَمِيْنَ»[21-الأنبياء:91] ” جس نے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی اور ہم نے اپنی روح پھونکی اور خود اسے اور اس کے بچے کو لوگوں کے لیے اپنی قدرت کی علامت بنایا۔ “
عیسیٰ کی بابت ایک اور آیت میں ہے آیت «اِنْ هُوَ اِلَّا عَبْدٌ اَنْعَمْنَا عَلَيْهِ وَجَعَلْنٰهُ مَثَلًا لِّبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ»[43-الزخرف:59] [ 43۔ الزخرف: 59 ] ، ” وہ ہمارا ایک بندہ تھا جس پر ہم نے انعام کیا۔ “ پس یہ مطلب نہیں کہ خود کلمتہ الٰہی عیسیٰ علیہ السلام بن گیا بلکہ کلمہ الٰہی سے عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے۔
امام ابن جریر رحمہ اللہ نے آیت «اذْ قَالَتِ الْمَلٰۗىِٕكَةُ يٰمَرْيَمُ اِنَّ اللّٰهَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِّنْهُ»[3-آل عمران:45] کی تفسیر میں جو کچھ کہا ہے اس سے یہ مراد ٹھیک ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلمہ جو جبرائیل علیہ السلام کی معرفت پھونکا گیا، اس سے عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے۔
صحیح بخاری میں ہے جس نے بھی اللہ کے ایک اور لا شریک ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عبد و رسول ہونے کی عیسیٰ علیہ السلام کے عبد و رسول ہونے اور یہ کہ آپ اللہ کے کلمہ سے تھے جو مریم رضی اللہ عنہا کی طرف پھونکا گیا تھا اور اللہ کی پھونکی ہوئی روح تھے اور جس نے جنت دوزخ کو برحق مانا وہ خواہ کیسے ہی اعمال پر ہو، اللہ پر حق ہے کہ اسے جنت میں لے جائے۔ [صحیح بخاری:3435]
ایک روایت میں اتنی زیادہ بھی ہے کہ جنت کے آٹھوں دروازوں میں سے جس سے چاہے داخل ہو جائے۔ [صحیح بخاری:3435] جیسے کہ جناب عیسیٰ علیہ السلام کو آیت و حدیث میں «روح منہ» کہا ہے ایسے ہی قرآن کی ایک آیت میں ہے آیت «وَسَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا مِّنْهُ»[45-الجاثية:13] ” اس نے مسخر کیا تمہارے لیے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے، تمام کا تمام اپنی طرف سے۔ “ یعنی اپنی مخلوق اور اپنے پاس سے یہ مطلب «روح منہ» کا ہے۔
پس لفظ «من تبعیض»(اس کا حصہ) کے لیے نہیں جیسے ملعون نصرانیوں کا خیال ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام اللہ کا ایک جزو تھے بلکہ «من» ابتداء کے لیے ہے۔
جیسے کہ دوسری آیت میں ہے «مَّا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ وَأُمُّهُ صِدِّيقَةٌ»[5-المائدة:75] ، مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں «روح منہ» سے مراد «رسول منہ» ہے۔
اور لوگ کہتے ہیں آیت «محبتہ منہ» لیکن زیادہ قوی پہلا قول ہے یعنی آپ پیدا کئے گئے ہیں، روح سے جو خود اللہ کی مخلوق ہے۔ پس آپ کو روح اللہ کہنا ایسا ہی ہے جیسے «ناقتہ اللہ» اور «بت اللہ» کہا گیا ہے یعنی صرف اس کی عظمت کے اظہار کے لیے اپنی طرف نسبت کی اور حدیث میں بھی ہے کہ ”میں اپنے رب کے پاس اس کے گھر میں جاؤں گا۔“
پھر فرماتا ہے تم اس کا یقین کر لو کہ اللہ واحد ہے بیوی بچوں سے پاک ہے اور یقین مان لو کہ جناب عیسیٰ اللہ کا کلام اللہ کی مخلوق اور اس کے برگزیدہ رسول ہیں۔ تم تین نہ کہو یعنی عیسیٰ علیہ السلام اور مریم رضی اللہ عنہا کو اللہ کا شریک نہ بناؤ اللہ کی الوہیت شرکت سے مبرا ہے۔ سورۃ المائدہ میں فرمایا آیت «لَقَدْ كَفَرَ الَّذِيْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللّٰهَ ثَالِثُ ثَلٰثَةٍ وَمَا مِنْ إِلَـٰهٍ إِلَّا إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ»[5-المائدة:73] ” یعنی جو کہتے ہیں کہتے ہیں کہ اللہ تین میں کا تیسرا ہے وہ کافر ہو گئے، اللہ تعالیٰ ایک ہی ہے، اس کے سوا کوئی اور لائق عبادت نہیں۔ “
سورۃ المائدہ کے آخر میں ہے کہ قیامت کے دن عیسیٰ علیہ السلام سے سوال ہو گا کہ «وَإِذْ قَالَ اللَّـهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ أَأَنتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَـٰهَيْنِ مِن دُونِ اللَّـهِ»[5-المائدة:116] ” اپنی اور اپنی والدہ کی عبادت کا حکم لوگوں کو تم نے دیا تھا، آپ صاف طور پر انکار کر دیں گے۔ “
نصرانیوں کا اس بارے میں کوئی اصول ہی نہیں ہے، وہ بری طرح بھٹک رہے ہیں اور اپنے آپ کو برباد کر رہے ہیں۔ ان میں سے بعض تو عیسیٰ کو خود اللہ مانتے ہیں، بعض شریک الہیہ مانتے اور بعض اللہ کا بیٹا کہتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر دس نصرانی جمع ہوں تو ان کے خیالات گیارہ ہوں گے۔
سعید بن بطریق اسکندری جو سن 400 ھ کے قریب گذرا ہے اس نے اور بعض ان کے اور بڑے علماء نے ذکر کیا ہے کہ قسطنطین بانی قسطنطنیہ کے زمانے میں اس وقت کے نصرانیوں کا اس بادشاہ کے حکم سے اجتماع ہوا، جس میں دو ہزار سے زیادہ ان کے مذہبی پیشوا شامل ہوتے تھے، باہم ان کے اختلاف کا یہ حال تھا کہ کسی بات پر ستر اسی آدمیوں کا اتفاق مفقود تھا، دس کا عقیدہ ایک ہے، بیس کا ایک خیال ہے، چالیس اور ہی کچھ کہتے ہیں، ساٹھ اور طرف جا رہے ہیں، غرض ہزار ہا کی تعداد میں سے بہ مشکل تمام تین سو اٹھارہ آدمی ایک قول پر جمع ہوئے۔
بادشاہ نے اسی عقیدہ کو لے لیا، باقی کو چھوڑ دیا اور اسی کی تائید و نصرت کی اور ان کے لیے کلیساء اور گرجے بنا دئے اور کتابیں لکھوا دیں، قوانین ضبط کر دئے، یہیں انہوں نے امانت کبریٰ کا مسئلہ گھڑا، جو دراصل بدترین خیانت ہے، ان لوگوں کو ملکانیہ کہتے ہیں۔
پھر دوبارہ ان کا اجتماع ہوا، اس وقت جو فرقہ بنا اس کا نام یعقوبیہ ہے۔ پھر تیسری مرتبہ کے اجتماع میں جو فرقہ بنا اس کا نام نسطوریہ ہے، یہ تینوں فرقے اقالیم ثلثہ کو عیسیٰ علیہ السلام کے لیے ثابت کرتے ہیں، ان میں بھی باہم دیگر اختلاف ہے اور ایک دوسرے کو کافر کہتے ہیں اور ہمارے نزدیک تو تینوں کافر ہیں۔
اللہ فرماتا ہے اس شرک سے باز آؤ، باز رہنا ہی تمہارے لیے اچھا ہے، اللہ تو ایک ہی ہے، وہ توحید والا ہے، اس کی ذات اس سے پاک ہے کہ اس کے ہاں اولاد ہو۔ تمام چیزیں اس کی مخلوق ہیں اور اس کی ملکیت میں ہیں، سب اس کی غلامی میں ہیں اور سب اس کے قبضے میں ہیں، وہ ہرچیز پر وکیل ہے، پھر مخلوق میں سے کوئی اس کی بیوی اور کوئی اس کا بچہ کیسے ہو سکتا ہے؟
دوسری آیت میں ہے آیت «بَدِيْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ اَنّٰى يَكُوْنُ لَهٗ وَلَدٌ وَّلَمْ تَكُنْ لَّهٗ صَاحِبَةٌ»[6-الأنعام:101] ” یعنی وہ تو آسمان و زمین کی ابتدائی آفرنیش کرنے والا ہے، اس کا لڑکا کیسے ہو سکتا ہے؟“ “