(آیت 33)قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ ……: اوپر کی آیت میں یہ بیان فرمایا کہ لوگوں نے اپنی طرف سے بہت سی چیزیں حرام کر رکھی تھیں، اب اس آیت میں اصل حرام چیزوں کو بیان فرما دیا۔ (رازی)”الْفَوَاحِشَ“ یہ ”فَاحِشَةٌ “ کی جمع ہے اور انتہائی قبیح فعل کو کہتے ہیں۔ ”الْاِثْمَ“ سے تمام چھوٹے بڑے گناہ مراد ہیں اور شراب کو بھی ”اِثْمٌ “ کہہ لیتے ہیں اور ”الْبَغْيَ“ کے معنی لوگوں پر ظلم اور زیادتی کے ہیں۔ الغرض یہاں محرمات کی پانچ قسمیں بیان فرمائی ہیں اور وہ بھی ”اِنَّمَا“ کلمۂ حصر کے ساتھ۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ ان کے علاوہ اور کوئی چیز حرام نہیں ہے، حالانکہ بہت سی دوسری اشیاء کی حرمت بھی قرآن و حدیث میں مذکور ہے۔ رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ دراصل جنایات (جرائم، قصور، زیادتیاں) پانچ ہی قسم کی ہیں، پہلی نسب پر جنایت ہے، اس کا سبب زنا (اور اس سے ملتی جلتی چیزیں) ہے۔ ” الْفَوَاحِشَ “ سے یہی مراد ہے۔ دوسری عقل پر جنایت جس کے دوسرے معنی شراب نوشی کے ہیں اور” الْاِثْمَ “ میں اس کی طرف اشارہ ہے۔ تیسری عزت پر جنایت، چوتھی جان و مال پر جنایت اور ” الْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ “ میں ان دونوں کی حرمت کی طرف اشارہ ہے۔ پانچویں دین پر جنایت اور یہ دو قسم کی ہے: (1) توحید میں طعن کرنا جس کی طرف «وَ اَنْ تُشْرِكُوْا بِاللّٰهِ» سے اشارہ فرمایا ہے۔ (2) اور بغیر علم کے اﷲ کے ذمے بات لگانا اور فتویٰ دینا جس کی طرف «اَنْ تَقُوْلُوْا عَلَى اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ» سے اشارہ فرمایا ہے۔ غرض کہ تمام جرائم اور جنایات میں یہ پانچ چیزیں اصول کی حیثیت رکھتی ہیں اور باقی ان کی شاخیں اور ان کے تحت آنے والی چیزیں ہیں، اس بنا پر” اِنَّمَا “ کے ساتھ حصر صحیح ہے اور اس پر کوئی اعتراض لازم نہیں آتا۔ (کبیر) یاد رہے کہ اﷲ کے ذمے بات لگانے میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمے بات لگانا بھی شامل ہے کیونکہ وہ اﷲ ہی کی بات ہے، اسی لیے جو جان بوجھ کر ان پر جھوٹ لگائے اس کا ٹھکانا جہنم ہے۔ رازی رحمہ اللہ کے جواب کے لاجواب ہونے میں شک نہیں، مگر ایک سادہ جواب یہ ہے کہ ” الْاِثْمَ “ میں ہر گناہ آ جاتا ہے، اس لیے ” اِنَّمَا “ کے ساتھ حصر پر کوئی اعتراض لازم نہیں آتا۔