(آیت 161) ➊ قُلْ اِنَّنِيْ هَدٰىنِيْ رَبِّيْۤ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ ……: پوری سورت میں توحید کو دلائل سے ثابت کرنے اور مشرکین کی تردید کے بعد آخر میں خلاصہ چند حقائق کی صورت میں بیان فرمایا۔ ” قِيَمًا “ یہ ” قِيَامٌ “ کے معنی میں مصدر ہے جسے مبالغے کے لیے دین کی صفت قرار دیا ہے، جیسے ” زَيْدٌ عَدْلٌ “ ہے، یعنی زید بہت عادل ہے، گویا سراسر عدل ہے، یعنی یہ دین نہایت قائم، مضبوط اور سیدھا ہے۔
➋ وَ مَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ: اس میں مشرکین مکہ اور یہود و نصاریٰ کی تردید ہے جو اس زعم میں مبتلا تھے کہ وہ دین ابراہیم پر قائم ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ آپ ان سے کہہ دیجیے کہ تمھارا دعویٰ غلط ہے، تمھاری اور ان کی کیا نسبت! تم مشرک اور ابراہیم علیہ السلام شرک سے بے زار اور ایک اﷲ کی طرف ہو چکنے والے۔ ان کا دین تو سچا، سیدھا اور نہایت مضبوط دین اسلام تھا، جسے اﷲ تعالیٰ نے اپنے مخلص بندوں کے لیے پسند فرمایا اور جس کی ہدایت میرے رب نے مجھے عطا فرمائی۔