(آیت 160) ➊ مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهٗ عَشْرُ اَمْثَالِهَا ……: اﷲ تعالیٰ ڈرانے کے ساتھ بشارت کا سلسلہ بھی جاری رکھتا ہے، اب اﷲ تعالیٰ کا نیکی کرنے والوں پر اپنے فضل اور برائی کرنے والوں پر عدل کا بیان ہے۔ نیکی کرنے والوں کی نیکی میں دس گنا اضافہ کم از کم ہے، ورنہ وہ سات سو گنا سے لے کر بے حساب تک بھی بڑھایا جاتا ہے، جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے جہاد فی سبیل اﷲ میں خرچ کرنے والے کی مثال ایک دانے کو سات سو دانوں تک بڑھانے کے ساتھ اپنی مرضی کے ساتھ اس سے بھی بڑھانے کی بات فرمائی ہے۔ دیکھیے سورۂ بقرہ (۲۶۱) خوشے کی مثال کا جہاد سے تعلق سمجھنے کے لیے سورۂ بقرہ(۲۷۳) اور سورۂ توبہ(۶۰) ملاحظہ فرمائیں۔ جہاد کے ساتھ دوسری نیکیوں میں سات سو سے بڑھ کر ثواب بھی قرآن میں مذکور ہے، فرمایا: «اِنَّمَا يُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ» [ الزمر: ۱۰ ]”صرف صبر کرنے والوں ہی کو ان کا اجر کسی شمار کے بغیر پورا پورا دیا جائے گا۔“
➋ وَ هُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ: یعنی ایک بدی کا بدلہ ایک سے زیادہ کا نہیں دیا جائے گا۔
➌ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اﷲ تعالیٰ سے روایت کرتے ہوئے فرمایا: ”جو شخص نیکی کا ارادہ کرے، پھر اسے نہ کرے اس کے لیے ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے، اگر کرے تو دس سے لے کر سات سو گنا سے بہت گنا تک لکھی جاتی ہے اور جو شخص برائی کا ارادہ کرے، پھر اسے نہ کرے تو اس کے لیے ایک پوری نیکی لکھی جاتی ہے اور اگر برائی کا ارادہ کیا اور اسے کر بھی لیا تو اﷲ اس کے لیے ایک ہی برائی لکھتا ہے، یا اﷲ عزوجل اسے بھی مٹا دیتا ہے اور اﷲ کے ہاں ہلاک نہیں ہوتا مگر جو سرے ہی سے ہلاک ہونے والا ہو۔“[ مسلم، الإیمان، باب إذا ھم العبد بحسنۃ ……:۱۳۱۔ بخاری: ۶۴۹۱ ] اس مقام پر حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے ایک نفیس بات لکھی ہے کہ برائی چھوڑنے والا جو اسے نہیں کرتا، تین طرح کا ہوتا ہے، کبھی تو وہ اسے اﷲ تعالیٰ کی خاطر چھوڑتا ہے، اس پر ایک نیکی لکھی جاتی ہے کہ برائی سے اﷲ کے لیے رک جانا ایک عمل اور نیت ہے، جیسا کہ بعض صحیح احادیث میں ہے کہ اس نے اسے میری خاطر چھوڑا ہے اور کبھی وہ غفلت یا بھول کی وجہ سے برائی نہیں کرتا، اسے نہ گناہ ہے نہ ثواب، کیونکہ اس کی نیت نہ خیر کی ہے نہ شر کی اور کبھی اپنی پوری کوشش کے باوجود بس نہ چلنے کی وجہ سے کر نہیں سکتا، تو یہ اس شخص کی طرح ہے جس نے وہ برائی کی ہو، جیسا کہ صحیح حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب دو مسلمان اپنی تلواریں لے کر ایک دوسرے کے مقابلے میں آئیں تو قاتل اور مقتول دونوں آگ میں ہوں گے۔“ لوگوں نے پوچھا: ”یا رسول اﷲ! یہ تو قاتل ہے، مقتول کا کیا معاملہ ہے؟“ فرمایا: ”وہ بھی اپنے ساتھی کے قتل کی حرص رکھتا تھا۔“[ بخاری، الإیمان، باب: «و إن طائفتان من المؤمنين اقتتلوا ……» : ۳۱۔ مسلم: ۲۸۸۸ ]