تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 151) قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ: اب اﷲ تعالیٰ تفصیل سے بیان فرماتے ہیں کہ حرام وہ نہیں جو تم نے اپنی مرضی سے حرام بنا لیا، بلکہ وہ ہے جو تمھیں پیدا کرنے والے اور ہر لمحے پالنے والے نے تم پر حرام کیا ہے، آؤ! میں خود وہ تم سے بیان کرتا ہوں۔ یہ دس احکام ہیں جو اسلام کا خلاصہ ہیں۔

اَلَّا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَيْـًٔا: یہاں بیان تو وہ چیزیں کرنی تھیں جو اﷲ تعالیٰ نے حرام فرمائی ہیں، مگر بیان وہ چیزیں فرمائی ہیں جن کا نہایت تاکید کے ساتھ حکم ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے حرام کرنے سے تمھارے لیے جو حکم تاکید کے ساتھ ثابت ہوتے ہیں وہ یہ ہیں۔ گویا یہ مفہوم حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ کے ضمن ہی میں شامل ہے کہ یہاں وَصَّاكُمْ بِهِ محذوف ہے، یعنی اس نے تمھیں تاکیداً حکم دیا ہے کہ اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو، اس کی دلیل یہاں مذکور تینوں آیات کے آخری الفاظ ہیں: «ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ» ‏‏‏‏ یعنی یہ ہے جس کا تاکیدی حکم اس نے تمھیں دیا ہے۔ اگر مراد ہوتا کہ یہ چیزیں حرام کی ہیں تو آخر میں یہ الفاظ ہونے چاہیے تھے: ذٰلِكُمْ حَرَّمَ عَلَيْكُمْ یعنی یہ ہیں وہ چیزیں جو اس نے تم پر حرام کی ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے سب سے پہلا تاکیدی حکم یہ دیا کہ اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ، نہ کسی انسان کو، نہ کسی جن کو، نہ کسی فرشتے کو، نہ کسی پہاڑ، پتھر، دریا یا درخت کو۔ غرض کوئی چیز کتنی بھی عظیم الشان ہو اسے اﷲ کا کسی بھی چیز میں شریک مت بناؤ، کیونکہ سب اﷲ کے پیدا کردہ ہیں۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ تم اﷲ کا شریک بناؤ، حالانکہ اس نے تمھیں پیدا کیا۔ [ بخاری، التفسیر، باب: ۴۴۷۷ ]

اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: بے شک اﷲ اس بات کو نہیں بخشے گا کہ اس کا شریک بنایا جائے اور بخش دے گا جو اس کے علاوہ ہے جسے چاہے گا۔ [ النساء: ۱۱۶ ] اور اﷲ تعالیٰ نے مسیح علیہ السلام کا قول ذکر فرمایا کہ جو بھی اﷲ کے ساتھ شریک بنائے سو یقینا اﷲ نے اس پر جنت حرام کر دی۔ [ المائدۃ: ۷۲ ]

وَ بِالْوَالِدَيْنِ۠ اِحْسَانًا: اِحْسَانًا فعل محذوف اَحْسِنُوْا کا مفعول مطلق ہے جس سے مقصود تاکید ہے، اس لیے ترجمہ خوب احسان کرو کیا ہے۔ قرآن مجید کی متعدد آیات میں جہاں اﷲ تعالیٰ کی عبادت کرنے اور شرک سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے وہاں والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے کی بھی تاکید کی گئی ہے، کیونکہ والدین کو اﷲ تعالیٰ نے تکلیف پر تکلیف اٹھا کر ولادت اور دلی محبت کے ساتھ پالنے کا ذریعہ بنایا ہے۔ ان آیات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بندوں کے حقوق میں سے سب سے مقدم حق انسان پر اس کے والدین کا ہے۔ دیکھیے سورۂ بنی اسرائیل (۲۳) اور سورۂ لقمان (۱۴، ۱۵)

وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَوْلَادَكُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍ ……: پیدا ہو چکنے کے بعد یا جب کہ وہ ماؤں کے پیٹ میں ہوں، مثلاً کوئی دوا کھلا کر قبل از وقت حمل گرا دینا۔ سورۂ بنی اسرائیل (۳۱) میں بھی یہی حکم دیا گیا ہے، مگر یہاں اور وہاں دو فرق ہیں، یہاں مِنْ اِمْلَاقٍ (مفلسی کی وجہ سے) ہے اور وہاں خَشْيَةَ اِمْلَاقٍ (مفلسی کے ڈر سے) ہے۔ اسی طرح یہاں نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَ اِيَّاهُمْ (ہم ہی تمھیں رزق دیتے ہیں اور ان کو بھی) ہے اور وہاں نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَ اِيَّاكُمْ ہم ہی انھیں رزق دیتے ہیں اور تمھیں بھی ہے۔ اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس مقام پر ان لوگوں کی بات ہے جو مفلسی میں گرفتار ہیں۔ فرمایا کہ اس مفلسی میں انھیں قتل مت کرو، ہم مفلسی کے باوجود تمھیں جو روزی دیتے ہیں انھیں بھی دیں گے، جبکہ بنی اسرائیل میں ان لوگوں کا ذکر ہے جو مفلسی میں مبتلا تو نہیں مگر بچوں کے پیدا ہونے پر مفلسی سے ڈر رہے ہیں، فرمایا کہ ڈرو نہیں ہم انھیں بھی روزی دیں گے، تمھیں بھی تو دے رہے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ تمھارا یہ سمجھنا کہ روزی کے مالک تم خود ہو، بالکل غلط ہے، یہ ہمارا کام اور ہمارا ذمہ ہے۔ (دیکھیے ہود: ۶) کفار کا تو کہنا ہی کیا ہے، اس وقت مسلم حکومتیں اسی بہانے سے ضبطِ و ولادت یا خاندانی منصوبہ بندی کے نام پر منظم طریقے سے قتل اولاد کا جرم کر رہی ہیں کہ ہمارے پاس وسائل کم ہیں، ہم زیادہ آبادی کی خوراک کا بندوبست نہیں کر سکتے، حالانکہ یہ کفر کا کلمہ ہے۔ خوراک کا بندوبست تو اﷲ تعالیٰ کے ذمے ہے، بلکہ ان حکمرانوں کا تمام عیش ان مفلسوں کی محنت ہی کا نتیجہ ہے، جن کی خوراک کے وہ ذمہ دار بن رہے ہیں۔ ہر بچے کو اﷲ تعالیٰ کھانے کے لیے ایک منہ اور کمانے کے لیے دو ہاتھ دے کر بھیجتا ہے اور جیسے جیسے آبادی بڑھ رہی ہے زمین کے خزانوں کے منہ کھلتے جا رہے ہیں۔ دیکھیے سورۂ حجر (۱۹ تا ۲۲)۔

وَ لَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ ……: اَلْفَاحِشَةُ ، اَلْفَحْشَاءُ اور اَلْفَحْشُ کا معنی ہے ہر وہ قول یا فعل جو قباحت میں بہت بڑھا ہوا ہو، مثلاً زنا، شدید بخل وغیرہ۔ (راغب) اس لیے اس کا ترجمہ بے حیائی کرتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے ایسے ہر کام کو خواہ ظاہر ہو، جیسے سب کے سامنے زنا یا قوم لوط کی حرکتیں کرنا، یا پوشیدہ، مثلاً چھپ کر زنا اور چوری وغیرہ کرنا، انھیں حرام قرار دیا۔ اس مقام پر ایسے ہر کام کے قریب جانے کو بھی حرام قرار دیا، جیسا کہ سورۂ بنی اسرائیل (۳۲) میں زنا کے قریب جانے سے بھی منع فرمایا، کیونکہ قریب جانا ہی گناہ کے ارتکاب کا باعث بنتا ہے۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اﷲ تعالیٰ سے بڑھ کر کوئی غیرت والا نہیں، اسی لیے اس نے بے حیائی کی ظاہر اور پوشیدہ تمام شکلوں کو حرام قرار دیا ہے۔ [ بخاری، التفسیر، باب قولہ تعالٰی: «ولا تقربوا الفواحش ……» ‏‏‏‏: ۴۶۳۴ ]

وَ لَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ ……: عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی مسلمان کا خون، جو اس بات کی شہادت دیتا ہو کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک میں اﷲ کا رسول ہوں، تین صورتوں کے سوا کسی بھی صورت میں حلال نہیں:(1) جان کے بدلے جان (2) شادی شدہ زانی (3) دین سے جدا ہو کر (مسلمانوں کی) جماعت کو ترک کر دینے والا۔ [ بخاری، الدیات، باب قول اﷲ تعالٰی: «‏‏‏‏إن النفس بالنفس والعين بالعين……» ‏‏‏‏: ۶۸۷۸ ] یا ان تینوں کے علاوہ جس کے قتل کرنے کا واضح حکم قرآن یا حدیث میں موجود ہو، مثلاً محارب (ڈاکو، باغی) یا محرم سے نکاح کرنے والا، انھیں قتل کرنا ناحق نہیں بلکہ حق ہے۔

لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ: تاکہ تم سمجھو، عقل کرو، کیونکہ یہ ایسے کام ہیں کہ ان کا ارتکاب عقل کی خست کی دلیل ہے اور ان کاموں کی قباحت عقل بھی محسوس کرتی ہے، نصیحت اس لیے ہے کہ تم عقل کے تقاضے کے مطابق چلو۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.