تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 146)وَ عَلَى الَّذِيْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا كُلَّ ذِيْ ظُفُرٍ ……: ہر ناخن والے جانور سے مراد وہ جانور یا پرندہ ہے جس کی انگلیاں پھٹی ہوئی، یعنی الگ الگ نہ ہوں، مثلاً اونٹ، شتر مرغ، بطخ وغیرہ، یعنی صرف وہ پرندے یا جانور حلال تھے جن کے پنجے کھلے ہوں۔

اَوِ الْحَوَايَاۤ: یہ حَوِيَّةٌ کی جمع ہے جیسے عِطْيَةٌ کی جمع عَطَايَا اور خَطِيَّةٌ کی جمع خَطَايَا ہے، یا یہ حَاوِيَةٌ کی جمع ہے، جیسے ضَارِبَةٌ کی جمع ضَوَارِبٌ مطلب وہ انتڑیاں جن میں مینگنیاں ہوتی ہیں۔

ذٰلِكَ جَزَيْنٰهُمْ بِبَغْيِهِمْ وَ اِنَّا لَصٰدِقُوْنَ: یعنی یہ چیزیں جس طرح اب شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم میں حرام نہیں ہیں اس سے پہلے بھی حرام نہ تھیں، البتہ یہودیوں کو ان کی سرکشی کی سزا دینے کے لیے ہم نے انھیں وقتی طور پر حرام کر دیا تھا۔ (دیکھیے نساء: ۱۶۰) مقصد یہودیوں کے اس دعوے کی تردید ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے ہم پر کوئی چیز حرام نہیں کی، سوائے ان چیزوں کے جو اسرائیل (یعقوب علیہ السلام) نے خود اپنے آپ پر حرام کر لی تھیں۔ (قرطبی۔ ابن کثیر) اور اِنَّا لَصٰدِقُوْنَ (بلاشبہ ہم یقینا سچے ہیں) کا مطلب یہ ہے کہ یہود کا یہ دعویٰ غلط ہے اور صحیح بات وہ ہے جو ہم نے بیان کی ہے، نیز دیکھیے سورۂ آل عمران (۹۳)۔

مگر یہودیوں نے حیلے سے چربی کی ایک صورت حلال کر ہی لی۔ جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے فتح مکہ کے سال مکہ میں سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اﷲ یہود کو برباد کرے، جب ان کے لیے چربیوں کو حرام کیا گیا تو انھوں نے انھیں پگھلایا اور پھر ان کی قیمت کھا گئے۔ [ بخاری، البیوع، باب بیع المیتۃ والأصنام: ۲۲۳۶ ] یہ ایسے ہی ہے جیسے آج کل کئی مسلمان شراب خود نہیں پیتے اور خنزیر کا گوشت وغیرہ خود نہیں کھاتے، مگر کفار کے ہاتھوں بیچ کر قیمت کھا جاتے ہیں۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.