(آیت 136)وَ جَعَلُوْا لِلّٰهِ مِمَّا ذَرَاَ مِنَ الْحَرْثِ......: قیامت اور جزا و سزا کے متعلق ان کے خیالات کی تردید کے بعد یہاں سے ان کی دوسری اعتقادی اور عملی حماقتوں اور جہالتوں کا بیان شروع ہو رہا ہے جو مدت سے چلی آئی تھیں۔ عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ جب تم عربوں کی جہالت معلوم کرنا چاہو تو سورۂ انعام کی آیت (۱۳۰) سے لے کر «قَدْ خَسِرَ الَّذِيْنَ قَتَلُوْۤا» یعنی آیت(۱۴۰) تک پڑھ لو۔ [ بخاری، المناقب، باب قصۃ زمزم و جہل العرب: ۳۵۲۴ ] ان میں سے پہلی جہالت یہ تھی کہ اپنی کھیتی اور چوپاؤں میں سے ایک حصہ انھوں نے اﷲ تعالیٰ کے لیے، یعنی مہمان نوازی، صلہ رحمی اور اﷲ کو خوش کرنے والے کاموں کے لیے مقرر کیا ہوا تھا اور ایک حصہ اپنے داتاؤں، مشکل کشاؤں، ان کی شکل پر بنائے ہوئے بتوں، ان کے پروہتوں اور کاہنوں کے لیے۔ اگر کسی وجہ سے بتوں اور کاہنوں کا حصہ کم پڑ جاتا تو اﷲ تعالیٰ کے حصے میں سے لے کر اس میں ڈال دیتے اور کہتے کہ اﷲ تو غنی ہے، اس کو زیادہ مال کی کیا ضرورت ہے اور اگر اﷲ تعالیٰ کا حصہ کم پڑ جاتا تو اس میں بتوں کے حصے میں سے کچھ نہ ڈالتے۔ اب بتائیے کہ اﷲ تعالیٰ کے مقابلے میں شریک بنانا کون سی کم جہالت تھی کہ اس سے بڑھ کر ان شرکاء کو خوش کرنے کے لیے کھیتی اور چوپاؤں کے حصے میں ان کو اﷲ پر ترجیح دینے کی جہالت اختیار کرتے! یہ اسی طرح ہے جیسے آج کل بعض مسلمان اﷲ کا فرض زکوٰۃ اور عشر نہیں نکالیں گے، مگر اپنے فوت شدہ داتاؤں اور غریب نوازوں کی نیاز میں کبھی ناغہ نہیں آنے دیں گے اور عقیدہ یہ رکھیں گے کہ اگر اس میں کمی ہو گئی تو جانوروں کے تھنوں میں سے دودھ کے بجائے خون آئے گا۔ نام اس کا ایصال ثواب رکھیں گے، مگر ایصال ثواب تو اﷲ کے نام پر صدقہ کرنے سے ہوتا ہے، نہ کہ بزرگوں کی قبروں پر چڑھاوے چڑھا کر اور اگر اﷲ ہی کو خوش کرنا ہو تو غیر اﷲ کی نذر و نیاز کے بجائے عشر اور زکوٰۃ نکالیں۔