(آیت 125) ➊ فَمَنْ يُّرِدِ اللّٰهُ اَنْ يَّهْدِيَهٗ ……:”اسلام “ کا لفظی معنی ہے تابع ہو جانا، اپنے آپ کو سپرد کر دینا۔ ” حَرَجًا “ نہایت تنگ، گھٹا ہوا، درختوں کا وہ جھنڈ جس میں کوئی چیز داخل نہ ہو سکے۔ ” يَصَّعَّدُ “ یہ ” صَعِدَ يَصْعَدُ “(س) سے باب تفعل کا مضارع ہے، یعنی ” يَصَّعَّدُ “ اصل میں ”يَتَصَعَّدُ“ تھا، حروف زیادہ ہونے سے معنی میں ایک لفظ کا اضافہ کیا ہے، یعنی مشکل سے چڑھ رہا ہے۔
➋ اس آیت میں اﷲ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ رسالت کی طرح ہدایت و گمراہی بھی اس کے ہاتھ میں ہے، وہ اپنے نظام عدل کے مطابق جسے ہدایت دینا چاہتا ہے اس کا سینہ صحیح بات تسلیم کرنے کے لیے کھول دیتا ہے، اس کے لیے ہدایت کے راستے آسان کر دیتا ہے، اسے حق قبول کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی اور وہ آسانی سے اپنے آپ کو اﷲ اور اس کے رسول کے تابع فرمان کر دیتا ہے اور جسے اس کی سرکشی کے باعث ہدایت نہیں دینا چاہتا اس کا سینہ حق قبول کرنے کے لیے تنگ اور نہایت گھٹا ہوا کر دیتا ہے، جیسا کہ وہ بلندی کی طرف مشکل سے چڑھ رہا ہے، جوں جوں اوپر چڑھتا ہے، ایک تو چڑھائی کی وجہ سے دوسرے آکسیجن کے کم اور پھر ختم ہونے کی وجہ سے سانس ہی نہیں لے سکتا۔ جو لوگ حق سمجھ کر انکار کا راستہ اختیار کرنے والے ہیں ان پر ایمان کی طہارت حاصل نہ ہونے کی وجہ سے کفر کی گندگی چڑھتی چلی جاتی ہے۔ دیکھیے سورۂ بقرہ (۶، ۷)، سورۂ توبہ (۱۲۵)، سورۂ لیل (۵ تا ۱۰) اور سورۂ یونس(۱۰۰)۔
➌ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ”اوپر فرمایا تھا کہ کافر قسمیں کھاتے ہیں کہ ایک آیت (نشانی) دیکھیں تو ضرور یقین لے آئیں گے، اب فرمایا کہ ہم نہ دیں گے ایمان تو کیونکر لائیں گے۔ بیچ میں مردہ حلال کرنے کے حیلے ذکر کیے، اب اس بات کا جواب فرمایا کہ جس کی عقل اس طرف چلے کہ اپنی بات کو نہ چھوڑے، جو دلیل دیکھے کچھ حیلہ بنا لے، وہ نشان ہے گمراہی کا اور جس کی عقل چلے انصاف پر اور حکم برداری پر وہ نشان ہدایت ہے۔ ان لوگوں میں نشان ہیں گمراہی کے، ان کو کوئی آیت اثر نہ کرے گی۔“(موضح)