(آیت 116)وَ اِنْ تُطِعْ اَكْثَرَ مَنْ فِي الْاَرْضِ ……: اﷲ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں اپنے نبی کو متنبہ کیا ہے کہ کثرت آپ کے نزدیک حق کی دلیل نہیں ہونی چاہیے اور محض کثرت کی بنیاد پر آپ کو اہل زمین کا اتباع نہیں کرنا چاہیے، ورنہ آپ راہ حق سے ہٹ جائیں گے۔ یہ کفار جو کثیر تعداد میں ہیں، اس جھوٹے گمان میں مبتلا ہیں کہ ان کے آباء و اجداد حق پر تھے، اس لیے ان کی تقلید کرتے ہیں۔ ان کے پاس اس کے سوا کوئی دلیل موجود نہیں ہے کہ لوگوں کی اکثریت اسی دین پر قائم ہے جو ان کا بھی دین ہے۔ یہ لوگ اﷲ تعالیٰ کے بارے میں اٹکل پچو باتیں کرتے ہیں، کبھی کسی کو اﷲ کا بیٹا کہتے ہیں تو کبھی بتوں کو اﷲ کے پاس اپنا سفارشی بناتے ہیں اور کبھی مردوں اور غیر اﷲ کے نام پر ذبح کیے ہوئے جانوروں کو حلال قرار دیتے ہیں۔ اس آیت سے موجودہ جمہوریت کی حقیقت بھی خوب واضح ہوتی ہے، جس میں اکثریت ہی کو فیصلہ کن سمجھا جاتا ہے۔ اکثریت سے متعلق اﷲ تعالیٰ نے اس آیت کے علاوہ بھی حق پر نہ ہونے کا ذکر فرمایا ہے: «وَ مَاۤ اَكْثَرُ النَّاسِ وَ لَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِيْنَ» [یوسف: ۱۰۳ ]”اور اکثر لوگ خواہ تو حرص کرے ہرگز ایمان لانے والے نہیں ہیں۔“ اور فرمایا: «وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ» [ یونس: ۵۵ ]”اور لیکن ان کے اکثر نہیں جانتے۔“ اور فرمایا: «وَ قَلِيْلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشَّكُوْرُ» [سبا: ۱۳ ]”اور بہت تھوڑے میرے بندوں میں سے پورے شکر گزار ہیں۔“ اور فرمایا: «اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ قَلِيْلٌ مَّا هُمْ»[ ص: ۲۴ ]”مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے اور یہ لوگ بہت ہی کم ہیں۔“
اب ایک طرف اﷲ کا حکم ہو جس سے پکی دلیل کوئی ہو نہیں سکتی اور ایک طرف اکثریت ہو جن کی بنیاد محض ان کے گمان اور اٹکل پر ہے اور اس اٹکل کی بنیاد پر انھوں نے بے شمار حرام چیزوں، مثلاً شرک، سود، زنا، قوم لوط کے عمل وغیرہ کو حلال کر لیا اور بے شمار حلال چیزوں کو حرام قرار دے دیا ہے تو بتائیے حق کس طرف ہو گا؟ اس لیے اس آیت میں اﷲ کے حکم کے مقابلے میں اہل زمین کی اکثریت کی اطاعت سے منع فرمایا۔