(آیت 113) ➊ وَ لِتَصْغٰۤى اِلَيْهِ ……: اس کا عطف ” غُرُوْرًا “ پر ہے، یعنی ” لِيَغُرُّوْا بِذٰلِكَ وَ لِتَصْغٰي“”تاکہ وہ اس کے ساتھ دھوکا دیں اور تاکہ ان لوگوں کے دل جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اس (جھوٹ) کی طرف مائل ہوں۔“ یہ توجیہ ان تمام توجیہوں سے بہتر ہے جو یہاں کی گئی ہیں۔ (رازی)
➋ وَ لِيَرْضَوْهُ وَ لِيَقْتَرِفُوْا ……:”اِكْتَسَبَ يَكْتَسِبُ “ اچھی یا بری دونوں کمائیوں کو کہتے ہیں، جبکہ ” اِقْتَرَفَ يَقْتَرِفُ “ برے اعمال کمانے کو کہتے ہیں، یعنی ان شیاطین کے پیشِ نظر اس وحی سے یہ سب مقاصد ہیں۔ (رازی) شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ یہ کئی آیتیں اس وقت نازل ہوئیں جب کفار کہنے لگے کہ مسلمان اپنا مارا ہوا جانور کھاتے ہیں اور اﷲ کے مارے ہوئے کو حرام سمجھتے ہیں۔ فرمایا کہ ایسی فریب کی باتیں شیطان کرتے ہیں، تاکہ انسانوں کو شبہات میں ڈالا جائے۔ عقل کا حکم نہیں، حکم اﷲ کا ہے۔ آگے پھر واضح طور پر سمجھایا گیا کہ ہر جانور کو مارنے والا اﷲ ہی ہے اور اس کے نام میں برکت ہے، سو جو اس کے نام پر ذبح ہوا وہ حلال ہے اور جو اس کے نام کے بغیر مر گیا وہ مردار ہے۔ (موضح)