(آیت 103)لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ …: ” اَدْرَكَ يُدْرِكُ “ کا معنی کسی چیز کو پالینا ہے، اس لیے اس کا معنی دیکھنا بھی ہو سکتا ہے اور کسی چیز کی حقیقت کو پا لینا بھی۔ ادراک کا معنی اگر آنکھوں سے دیکھنا ہو تو اس کے متعلق ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں: ”جو تمھیں بیان کرے کہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے اپنے رب کو دیکھا تو اس نے یقینا جھوٹ کہا۔“ پھر انھوں نے یہ آیت پڑھی: «لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ وَ هُوَ يُدْرِكُ الْاَبْصَارَ …» پھر فرمایا: ”لیکن آپ نے جبریل علیہ السلام کو ان کی اصلی صورت میں دو دفعہ دیکھا ہے۔“[ بخاری، التفسیر، سورۃ والنجم: ۴۸۵۵ ] عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بھی فرمایا (سورۂ نجم میں مذکور آیات) «فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰى (9) فَاَوْحٰۤى اِلٰى عَبْدِهٖ مَاۤ اَوْحٰى» سے مراد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل علیہ السلام کو دیکھا کہ ان کے چھ سو پر تھے۔ [ بخاری، التفسیر، باب: فکان قاب قوسین أو أدنی: ۴۸۵۶ ]
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی سے بھی ثابت نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں رب تعالیٰ کو دیکھا ہے۔ یہی صحیح معلوم ہوتا ہے، صرف ابن عباس رضی اللہ عنہما دیکھنے کے قائل ہیں، مگر وہ کبھی ساتھ یہ بھی فرماتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دل کی آنکھ سے دو مرتبہ اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے۔ مزید تفصیل سورۂ نجم میں آئے گی۔ یہ تمام بحث دنیا میں نہ دیکھ سکنے کی ہے، مگر قرآن مجید کی متعدد آیات اور صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ قیامت کے دن انبیاء کے علاوہ مومنوں کو بھی اللہ تعالیٰ کا دیدار ہو گا اور وہ بغیر کسی تکلیف کے اپنی اپنی جگہ اللہ تعالیٰ کو دیکھیں گے، جیسے چاند کے دیکھنے میں کسی کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی اور جنت کی سب سے بڑی نعمت یہی ہو گی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «وُجُوْهٌ يَّوْمَىِٕذٍ نَّاضِرَةٌ(22) اِلٰى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ»[ القیامۃ: 23،22]”کئی چہرے اس دن تروتازہ ہوں گے۔ اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔“ لیکن ادراک کا معنی اگر حقیقت کو پالینا ہو تو یہ تو قیامت کے دن بھی نہ کسی فرشتے کے لیے ممکن ہے نہ رسول کے لیے، کیونکہ محدود مخلوق لا محدود کی حقیقت کو کیسے پا سکتی ہے۔ پھر زیر تفسیر آیت کے مطابق دنیا اور آخرت کسی جگہ بھی آنکھیں اللہ تعالیٰ کی حقیقت کو نہیں پاسکتیں۔