(آیت 99) ➊ وَ هُوَ الَّذِيْۤ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً …: ” قِنْوَانٌ “ یہ ” قِنْوٌ “ کی جمع ہے بمعنی خوشے۔ ” دَانِيَةٌ “ یہ ”دَنَا يَدْنُوْ “ سے اسم فاعل ہے، یعنی قریب، مراد نیچے جھکے ہوئے۔ ” مُشْتَبِهًا وَّ غَيْرَ مُتَشَابِهٍ “ یعنی پتے ملتے ہیں، مگر پھل مختلف ہیں، یا ایک ہی درخت، مثلاً آم کو لے لیں کہ ان کے پودے ملتے جلتے ہیں، مگر ہر پودے کے پھل کی لذت الگ ہے۔
➋ یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرتوں میں سے ایک عظیم قدرت اور نعمت کا ذکر فرمایا ہے، اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی اتارا، پھر اس کے ذریعے سے نرم و نازک انگوری نکالی، جس سے تہ بہ تہ دانوں سے بھرے ہوئے خوشے نکالے اور کھجور کو دیکھو کہ پہلے ایک سُوا سا نکلا، پھر وہ درخت بن گیا، پھر اس سے کچا پھل بنایا، پھر اس کا رنگ بدلتا جاتا ہے اور وہ بڑا بھی ہو جاتا ہے۔ ان کے پھل دینے کو اور ان کے پکنے کو دیکھو، جب کچا ہوتا ہے تو اس کی کچھ حیثیت نہیں اور پک کر کس قدر لذیذ ہو جاتا ہے۔ یہی حال انگور، زیتون اور انار کا ہے۔