(آیت 76تا79)فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ الَّيْلُ …: ابراہیم علیہ السلام کی قوم کئی معبودوں کی پرستش کرتی تھی، جن میں بت، سورج، چاند اور ستارے بھی تھے بلکہ بادشاہ بھی ان کا رب تھا۔ ابراہیم علیہ السلام نے ان سب چیزوں کے معبود نہ ہونے کے ایسے زبردست دلائل پیش کیے، جن کا کوئی جواب ان کے پاس نہ تھا۔ بتوں کے معبود نہ ہونے کو انھوں نے بت توڑ کر ثابت کیا۔ بادشاہ سے ایسی مدلل بات کی کہ آخر وہ ” فَبُهِتَ الَّذِيْ كَفَر “ بالکل لاجواب ہو گیا۔ یہاں زیر تفسیر آیات میں ان کا اپنی قوم کے ساتھ سورج، چاند اور ستاروں کے معبود نہ ہونے پر مناظرے کا ذکر ہے۔ چنانچہ ایک رات ابراہیم علیہ السلام نے ایک بہت چمکتا ہوا ستارہ دیکھ کر کہا: ”یہ میرا رب ہے۔“ یقینا وہ لوگ ابراہیم علیہ السلام کی زبان سے یہ بات سن کر بہت خوش ہوئے ہوں گے، مگر یہ تو توحید کے منکروں کو گھیر کر مارنے کی عظیم تدبیر تھی۔ یعنی ابراہیم علیہ السلام نے ایک محال چیز کو مفروضہ کے طور پر تسلیم کیا، تاکہ دل نشین طریقے سے انھیں قائل کیا جائے۔ چنانچہ جب وہ غروب ہوا تو ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا: ”میں غروب ہونے والوں سے محبت نہیں کرتا۔“ پھر چاند کو اپنا رب کہا، جب وہ بھی غروب ہو گیا تو فرمایا: ”میرے رب نے اگر مجھے ہدایت نہ دی تو یقینا میں بھی گمراہوں سے ہو جاؤں گا۔“ اس میں اس طرف اشارہ فرمایا کہ میں جس ہدایت پر ہوں وہ میری ذاتی سوچ اور فکر نہیں ہے اور نہ یہ میری ذاتی اور شخصی دعوت ہے، یہ میرے رب کی عنایت اور اسی کا احسان ہے، اس لیے میں اسی کی طرف دعوت دیتا ہوں۔ پھر سورج کو چمکتے ہوئے دیکھا اور کہا: ”یہ سب سے بڑا ہے، اس لیے یہی میرا رب ہے۔“ قوم کو امید پیدا ہوئی ہوگی کہ چلو ہمارے کسی معبود کو ماننے پر تو تیار ہو گیا ہے، مگر سورج کے غروب ہونے پر ان کے تمام معبودوں سے بے زاری کا اور زمین و آسمان کو پیدا کرنے والے ایک ہی معبود برحق کا اعلان کیا تو قوم جھگڑے پر اتر آئی، جھگڑے کے ساتھ اپنے خداؤں کے غضب سے ڈرانے لگی۔ ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا: ”میں تمھارے شریکوں سے نہیں ڈرتا، ہاں، اللہ تعالیٰ کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو وہ پہنچا سکتا ہے۔“
بعض لوگ کہتے ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام کی ولادت اور پرورش ایک غار کے اندر ہوئی تھی، تاکہ بادشاہ اپنے ایک خواب کی وجہ سے انھیں قتل نہ کر دے۔ جب باہر آئے تو اپنا رب ڈھونڈنے کے لیے غور و فکر کے یہ مراحل طے کیے اور آخر کار اللہ تعالیٰ تک پہنچ گئے، حالانکہ ان آیات میں صاف ذکر ہے کہ قوم کی مجلس میں یہ سب باتیں ہوئی ہیں جن کے ساتھ ابراہیم علیہ السلام نے قوم کو لاجواب کیا ہے۔ پھر دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے خود یہاں فرمایا: «وَ تِلْكَ حُجَّتُنَاۤ اٰتَيْنٰهَاۤ اِبْرٰهِيْمَ عَلٰى قَوْمِهٖ» [ الأنعام: ۸۳ ]”یہ تمام باتیں ہم نے دلیل کے طور پر ابراہیم کو قوم کے مقابلے میں عطا فرمائی تھیں۔“ اور جب انھوں نے اللہ کے حکم کے مطابق قوم کو اس دلیل کے ذریعے سے سورج، چاند اور ستارے کے رب نہ ہو سکنے کی بات سمجھائی تو وہ جھگڑے پر اتر آئے، جو ان کے لاجواب ہونے کی دلیل تھی۔