(آیت 55)➊ وَ كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ …: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے یہ باتیں اس لیے کھول کر بیان کی ہیں تاکہ حق ظاہر ہو جائے اور اس پر عمل کیا جا سکے اور مجرموں کا راستہ خوب واضح ہو جائے، تاکہ اس سے بچا جا سکے۔ (جلالین) اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو لوگ دعوت و تبلیغ کا کام کرتے ہیں انھیں مخالفین (مجرمین) کے ہتھکنڈوں سے پوری طرح باخبر ہونا چاہیے، تاکہ ان کی تردید کر سکیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں یہی خوبی تھی کہ ایک طرف تو وہ اسلام کو خوب سمجھتے تھے اور دوسری طرف جاہلیت کے رسم و رواج اور قوانین سے پوری واقفیت رکھتے تھے، کیونکہ وہ جاہلیت سے گزر کر آئے تھے۔ یہ مضمون حافظ ابن قیم رحمہ اللہ کی کتاب الفوائد میں خوب بیان ہوا ہے۔
➋ وَ لِتَسْتَبِيْنَ:” بَانَ يَبِيْنُ “ کا معنی ہے الگ ہونا، واضح ہونا، تو باب استفعال میں حروف کی کثرت کی وجہ سے ” اور تاکہ خوب واضح ہو جائے“ ترجمہ کیا ہے۔