(آیت 41،40)قُلْ اَرَءَيْتَكُمْ اِنْ اَتٰىكُمْ عَذَابُ اللّٰهِ …: اس مضمون کو بھی اللہ تعالیٰ نے کئی جگہ بیان کیا ہے۔ دیکھیے سورۂ بنی اسرائیل (۶۷)، سورۂ زمر (۳۸)، سورۂ مومنون (۸۴ تا ۸۹)، سورۂ لقمان (۳۲) اور سورۂ یونس (۲۲) ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے مشرکین کا طرزِ عمل بیان فرمایا، مطلب یہ ہے کہ توحید انسان کی فطرت میں رکھ دی گئی ہے، وہ ماحول کے اثر سے یا آباء و اجداد کی تقلید سے شرک میں گرفتار ہوتا ہے اور غیر اللہ کو اپنا حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتا رہتا ہے، نذر و نیاز بھی ان کے نام کی نکالتا ہے، لیکن جب آزمائش سے دو چار ہوتا ہے تو پھر سب کو بھول جاتا ہے اور فطرت ان سب پر غالب آ جاتی ہے، پھر بے بس انسان سب کچھ بھول جاتا ہے اور صرف اسی ایک ذات کو پکارتا ہے جسے پکارنا چاہیے۔ یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے ان کے اسی طرزِ عمل کو بطور ثبوت توحید کی دلیل کے طور پر بیان کیا، یعنی اگر اپنے اس دعویٰ میں کہ جنھیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو، وہ تم پر آئی ہوئی بلا ٹال سکتے ہیں تو یہ بتاؤ کہ اللہ کا عذاب آنے کی صورت میں، یا قیامت آنے پر بھی کیا تم غیر اللہ کو پکارو گے؟ نہیں بلکہ تم صرف اسی کو پکارو گے، باقی مشکل کشا تمھیں بھول جائیں گے۔ یہ تو ان کفار و مشرکین کا حال تھا لیکن آج خود مسلمانوں کے اندر ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جن کی فطرت اس قدر مسخ ہو چکی ہے کہ وہ سخت سے سخت مصیبت میں بھی فریاد کرتے ہیں تو اپنے کسی خود ساختہ داتا سے یا علی (رضی اللہ عنہ) سے، یا شیخ عبد القادر جیلانی سے، انھیں غوث اعظم، یعنی سب سے بڑا مدد گار کہہ کر، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، یا فاطمہ، حسین اور حسن رضی اللہ عنہم سے۔ نعرے بھی ان سے مدد مانگنے کے الفاظ کے ساتھ لگاتے ہیں، جیسا کہ یا رسول اللہ، یا علی، یا غوث اعظم وغیرہ، گویا ان کی حالت عملی طور پر ان پہلے کفار و مشرکین سے بھی بد تر ہے۔